Time 03 جنوری ، 2018
پاکستان

امداد روک کر پاکستان پر اپنی مرضی مسلط کرنا ممکن نہیں رہا، وزیر دفاع


وزیر دفاع خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون تقریباً ختم ہوچکا ہے جب کہ جماعت الدعوۃ کے خلاف حالیہ کارروائیوں کا تعلق امریکا سے نہیں بلکہ یہ آپریشن ردالفساد کا حصہ ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر کئی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن اس حوالے سے پاکستان سوچ سمجھ کر اقدامات کر رہا ہے۔

وزیردفاع نے کہا کہ جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی سوچ سمجھ کر کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو سکے اور آئندہ دہشت گرد کسی سکول میں بچوں کو گولیاں نہ مار سکیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ موجودہ پاکستان ضربِ عضب کے بعد کا پاکستان ہے، جو شہریوں، جوانوں اور افسران کی قربانیوں اور کامیاب آپریشنز کے بعد حاصل ہوا ہے، 'امریکا ہم سے انسدادِ دہشت گردی سیکھنے کی بجائے دشنام طرازی کر رہا ہے'۔

امریکا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے حوالے سے وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کو امریکی حکام کی جانب سے حالیہ بیانات کے بعد ’نقطۂ انتہا' قرار دیا اور کہا کہ حالیہ چند ماہ میں امریکی قیادت سے مثبت گفتگو ہوتی رہی لیکن ’عوامی سطح پر منفی تاثر دیا جاتا ہے۔‘

وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے دونوں ملکوں کے تعلقات کی خرابی میں بھارت کے ’بلاواسطہ کردار‘ کی وجہ خطے میں مضبوط ہوتے چین اور پاکستان کی چین سے قربت کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان کی زمین بھی استعمال کر رہا ہے۔

پاکستان اور امریکا کا تعلق اب ’دوستی اور دشمنی کے پیرائے سے نکل چکا ہے، وزیر دفاع

وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کا تعلق اب ’دوستی اور دشمنی کے پیرائے سے نکل چکا ہے‘، ان کے مطابق پاکستان نے مؤدب لیکن کُھل کر اور بے لاگ انداز میں امریکا کو بتا دیا ہے کہ وہ افغانستان میں ناکامی کے بعد پاکستان پر الزام تراشی نہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر بات چیت ہوتی رہی ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک ڈائیلاگ اب بھی معطل ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ تعاون کی زبان میں بات ہونی چاہیے، ’منفی اور دھمکی کی زبان استعمال کی گئی جس پر پاکستان کے عوام، منتخب حکومت اور افواج کو سخت ترین تحفظات ہیں۔‘

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے کے آغاز میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ گذشتہ ڈیڑھ دہائی میں اربوں ڈالر کی امداد لینے کے باوجود پاکستان نے امریکا کو سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا ہے۔

وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے امریکی نائب صدر کے پاکستان کو نوٹس دیے جانے سے متعلق بیان پر کہا کہ تقاریر اور ٹویٹس ’اُن باتوں سے متصادم ہیں جو امریکی اعلیٰ عہدیداروں نے پاکستان سے کی ہیں، وہ تو ہم سے سیکھنے اور تعاون کی بات کرتے ہیں۔‘

وزیر دفاع نے بتایا کہ پاکستان کی آدھی فضائی حدود امریکا کے لیے مکمل طور پر کھلی ہے، جبکہ زمینی راستے بھی دیے گئے ہیں، ’ان کے بغیر امریکا کی افغانستان میں رسائی نہایت مشکل ہو گی، اس لیے امریکا بجائے نو مور اور نوٹسز کے، پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے۔

خرم دستگیر کے مطابق پاکستان میں دہشت گردوں کی خفیہ پناہ گاہیں نہیں ہیں اور اگر باقیات ہیں تو انہیں رد الفساد کے تحت ختم کیا جا رہا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر امریکا کے پاس دہشت گردوں کی موجودگی سے متعلق ٹھوس اور قابلِ عمل انٹیلی جنس معلومات ہیں تو بتایا جائے، پاکستان فوری کارروائی کرے گا۔‘

عسکری شعبے میں امریکی امداد سے متعلق سوال پر وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون تقریباً ختم ہو چکا ہے تاہم ہم اپنی افواج کو سپورٹ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

انہوں نے کہا 'پاکستان کی معیشت میں بتدریج وہ طاقت آ گئی ہے کہ ہم اپنی مسلح افواج کو پوری طرح سپورٹ کر سکیں، امداد روک کر پاکستان پر اپنی مرضی مسلط کرنا ممکن نہیں رہا۔

پاکستانی حدود میں یکطرفہ امریکی کارروائی سے متعلق سوال پر وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پارہ صفت انسان ہیں، اس لیے ایسے کسی امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا تاہم ہماری نظر میں ایسی کارروائی کا امکان کم ہے اور امریکا کو علم ہے کہ اس کے بعد پاکستان کے پاس بھی اسپیس گھٹ جائے گا۔

خرم دستگیر نے کہا کہ اگر امریکا کو افغانستان میں امن مقصود ہے تو پاکستان مکمل معاونت کو تیار ہے تاہم افغانستان کی جنگ پاکستان کی زمین پر نہیں لڑی جائے گی، اگر امریکا افغانستان میں ناکامی پاکستان کے سر ڈالنے کی کوشش کرے گا تو ہم افغانستان کی ذمہ داری نہیں اٹھائیں گے۔

وزیر دفاع خرم دستگیر نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور افغانستان کا فرض ہے کہ وہ بھی ہماری خودمختاری کا احترام کرے۔

مزید خبریں :