03 جنوری ، 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو 15 سال میں 33 ارب ڈالر امداد دے کر بے وقوفی کی گئی، ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدور کو بھی نا بخشا اور کہا کہ وہ بے وقوف تھے جو پاکستان کو مالی معاونت فراہم کرتے رہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہم دنیا کو سچ بتائیں گے اور سچ اور فسانے کے بارے میں جلد پتہ چل جائے گا۔
میرے خیال میں خواجہ آصف یا تو بہت بھولے ہیں یا پھر حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں۔۔ جناب والا یہ دنیا بہت ظالم ہے اور اس کو ایک کہاوت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ 'ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں'، آپ دنیا کو سچ بتائیں یا نا بتائیں، مکمل دستاویزی ثبوت پیش کریں یا نہ کریں، لیکن دنیا کے نزدیک سچ وہی ہوگا جو امریکی صدر یا ان کے حمایتی یورپی ممالک کہیں گے، چاہے ان کے پاس ثبوت ہوں یا نہ ہوں۔
وہ یہ کہیں کہ پاکستان کو 200 ارب ڈالر دیئے تو دنیا کہے گی امریکی صدر سچ کہہ رہے ہیں، اگر وہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے نہتے مجاہدین پر بھارتی فوج کے ظلم ستم کو ظلم نہ سمجھیں اور بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں کی آزادی کی جنگ کو دہشت گردی قرار دیں تو اس کو حقیقت سمجھا جائے گا، فلسطین میں اسرائیلی فوج فائرنگ کرکے نہتے فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دے تو انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں لیکن اگر اسرائیلی فوج کے ظلم کے خلاف ایک معصوم فلسطینی بچی اپنا چھوٹا سا ہاتھ اسرائیلی فوجی کے منہ پر مار دے تو وہ دہشت گرد کہلائے اور جیل بھیج دی جائے، لیکن یہی صحیح سمجھا جائے گا۔
آپ مانیں یا نہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ 'طاقت ور کا جھوٹ بھی سچ سمجھا جاتا ہے'، امریکی دھمکیوں کا بہت آسانی سے جواب دیا جا سکتا تھا اگر ہم نے اپنے آپ کو معاشی طور پر طاقتور بناتے۔ ہمارے حکمراں اپنے خزانے بھرنے کے بجائے ملک کو امیر کرتے۔ لیکن ان سب نے پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کیا اور ان ہی کے اعمال کے باعث ہمارا ملک آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑتا چلا گیا اور قرض کا بوجھ کم ہونے کے بجائے دگنا تگنا ہوتا گیا۔
اب حال یہ کہ ہے کہ پاکستان پر اربوں ڈالر قرض چڑھا دیا گیا اور اب قرض واپس دینے کے لیے مزید قرض لیا جا رہا ہے، یعنی اب ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ قرض واپس کر سکیں۔ اس طرح ہمارے سر پر دیوالیہ ہونے جیسے خطرے کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ملک کا اقتدار سنبھالنے والوں نے خوب لوٹ مار کی اور ملک کی دولت ملک سے باہر منتقل کرتے رہے، ملک میں لوٹ مار کا بازار دیکھتے ہوئے سرمایہ دار طبقے نے اپنا اثاثہ ملک سے باہر منتقل کرنا شروع کردیا اور بس خرابیاں ہی ہوتی چلی گئی، یہاں یہ مثال بنتی ہے کہ اگر جسم کمزور ہوجائے اور قوت مدافعت بھی ختم ہوجائے تو بیماریاں حملہ کردیتی ہیں۔
ہمارے اشرافیہ اور حکمرانوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، وہ ہیرہ پھیری سے باز نہیں آئے، خود امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور ملک کو اتنا کمزور کر دیا کہ اب ہر جانب سے حملے ہو رہے ہیں اور ہم سوائے زبانی بیانات دینے کے عملی طور پر کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں اور اگر کوئی انکاری ہو تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ 'احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے'۔
پاکستان میں طاقت ور طبقہ مزید طاقت ور ہوتا گیا اور کیوں نا ہوتا جبکہ ان کے حمایت یافتہ افراد ایوانوں اور مسندِ اقتدار پر براجمان ہوتے رہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک ایران برسوں سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود آج بھی اتنا طاقت ور ہے کہ وہ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے اور کبھی دباؤ میں نہیں آتا۔ شمالی کوریا کو دیکھیں تو اس کا سربراہ امریکا کو براہ راست دھکمی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایٹم بم چلانے کا بٹن اس کی میز پر ہے اور ان کی دھمکی دینی بنتی بھی ہے کیونکہ وہ کسی کے مقروض نہیں، یہ بات تو سب نے ہی سن رکھی ہوگی کہ 'کسی کا قرض واپس کرنا ہو تو اس کے سامنے آنکھیں نہیں اٹھائی جاسکتیں'۔
اب دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کے اس دھمکی آمیز بیان پر ہماری حکومت کس طرح جواب دیتی ہے؟ کس حد تک آواز بلند کرتی ہے اور دنیا میں اس کی بات کتنی سنی جائے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔