پاکستان
Time 13 جنوری ، 2018

چیف جسٹس نے نجی میڈیکل کالجز کو سالانہ 6 لاکھ 45 ہزار سے زائد فیس وصول کرنے سے روک دیا

کراچی: چیف جسٹس پاکستان نے نجی میڈیکل کالجز کو سالانہ 6 لاکھ 45 ہزار سے زائد فیس وصول کرنے سے روک دیا۔

سپریم کورٹ  کراچی رجسٹری میں نجی میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے معیار سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس دوران چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا کمرہ عدالت میں سرکاری اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس موجود ہیں؟ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے اسپتالوں میں کتنے بستر ہیں،کون سی مشینیں ہیں کون سی نہیں، اسپتالوں میں ادویات کی کیا پوزیشن ہے یہ بھی بتایا جائے، ہر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو الگ الگ حلف نامہ جمع کرانا ہوگا جب کہ سیکرٹری صحت ہر سرکاری اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے حلف نامہ بھروائیں۔

پی ایم ڈی سی مزید کسی کالج کو رجسٹرڈ نہیں کرے گا، چیف جسٹس

نجی میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ پی ایم ڈی سی کا کیا طریقہ کار ہے، ہم معیار طے کریں گے، ہم ایڈمیشن منسوخ نہیں کر رہے لیکن پی ایم ڈی سی مزید کسی کالج کو رجسٹرڈ نہیں کرے گا، ہم اس پورے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ نجی کالجوں کو ایک فارم دے رہے ہیں جنہیں بھر کر عدالت میں جمع کرائیں، نجی کالج مالکان 15دن کے اندر اندر معاملات ٹھیک کرلیں۔

معزز جج نے نجی کالج کے مالکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ التجا سمجھیں، بڑے بھائی کی بات سمجھیں یا حکم، انسپکشن ٹیم جائے گی تو پھر کوئی رعایت نہیں ملے گی۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کوئی نجی میڈیکل کالج سالانہ 6 لاکھ 45 ہزار سے زائد فیس وصول نہیں کرے گا،  اس سے زیادہ فیس نہیں لینے دیں گے۔

6 لاکھ 45 ہزار سے زائد فیس وصول نہیں کرنے دیں گے، چیف جسٹس پاکستان

اس پر نجی میڈیکل کالجز کے مالکان مؤقف اختیار کیا کہ اس سے انہیں نقصان ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ کیا صورتحال ہے پھر فیصلہ کریں گے، اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر کل بھی یہاں بیٹھیں گے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم افہام و تفہیم کے ساتھ چلیں گے، اگر ہم کوئی ایکشن نہیں لے رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اختیار نہیں، اگر ذمے داری ادا نہیں کرسکے تو خود چلے جائیں گے۔

معزز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس وسیع اختیارات ہیں، ڈرتے وہ ہیں جن کی کوئی کمزوریاں ہوں۔

ڈاکٹر عاصم کی پیشی پر دلچسپ صورتحال

اس دوران ڈاکٹر عاصم عدالت میں پیش ہوئے تو کمرہ عدالت میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی۔

چیف جسٹس نے ڈاکٹر عاصم سے مکالمہ کیا ’آپ تو بڑے خوش و خرم لگ رہے ہیں، کیا آپ ضمانت پر ہیں‘۔

چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا ڈاکٹر عاصم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہ اگرآپ ہماری مدد کریں تو ضمانت کو کچھ نہیں ہوگا۔

مزید خبریں :