18 جنوری ، 2018
خلیجی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ ایگزیکٹ کے کال ایجنٹس خود کو اماراتی عہدیدار ظاہر کر کے جعلی ڈگری لینے والوں سے رقم بٹور رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق ایگزیکٹ کے چنگل میں پھنسنے والوں سے رقم بٹورنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا اور کمپنی کے کال ایجنٹس ڈگریاں لینے والوں کو کال کرتے ہیں، اماراتی لہجے میں بات کرتے ہوئے کلائنٹس سے ڈگریوں کی سرکاری تصدیق کے نام پر رقم ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایگزیکٹ کے کال ایجنٹس سامنے والے کو مکمل ایریا کوڈ کے ساتھ متحدہ عرب امارات کا نمبر بتاتے ہیں جس سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ واقعی کسی آفیشل نمبر سے کال آئی ہے۔
اخبار نے دبئی میں مقیم جنوبی افریقا کے ایک شہری کو آنے والی کال کی تفصیل لکھی ہے جس سے بات کرنے والے نے خود کو دبئی پولیس کا افسر ظاہر کیا اور ڈگری لینے والے سے سرکاری تصدیق کے نام پر تقریباً ساڑھے 5 لاکھ پاکستانی روپے کا مطالبہ کیا۔ ایگزیکٹ کے کال ایجنٹ نے ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں کارروائی کی دھمکی بھی دی۔
خلیجی اخبار کے مطابق دبئی میں مقیم ایک اور غیر ملکی شہری کو بھی ایگزیکٹ کے کال ایجنٹ کی جانب سے کال آئی جس میں اس نے خود کو وزارت ہیومن ریسورس کا نمائندہ ظاہر کیا اور جب اخبار کے نمائندوں نے ان نمبرز پر کال کی تو وہ نمبر دو حکومتی اداروں کے نکلے۔
ایگزیکٹ کی اس دھوکا بازی کا نشانہ بننے والوں میں العین کی خاتون میڈیکل ٹیکنولوجسٹ بھی شامل ہیں جس نے کارروائی کے ڈر سے اپنے زیورات بیچ کر 70 ہزار ڈالر اکٹھے کیے اور 30 ہزار ڈالر یا تقریباً 33 لاکھ پاکستانی روپے ایگزیکٹ کو منتقل کیے۔
ایگزیکٹ کے ایک سابق ملازم سید یاسر جمشید نے خلیجی اخبار کو بتایا کہ اس کی سابق کمپنی لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے کالر آئی کا استعمال کرتی ہے جس سے فون سننے والے کو وہ نمبر دکھائی نہیں دیتا جس سے کال کی جا رہی ہوتی ہے۔
اخبار نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں فیس بک کی نیوز فیڈ میں ایک بار پھر آن لائن ڈگریوں کے اشہاروں کی بھرمار ہے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل برطانوی نشریاتی ادارے نے بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ایگزیکٹ نے برطانوی شہریوں کو بھی بڑے پیمانے پر جعلی ڈگریاں فروخت کیں۔
جعلی ڈگری کیس کی ابتداء
دنیا بھر میں جعلی ڈگری کے کاروبار کرنے والی کمپنی ایگزیکٹ کا انکشاف 18 مئی 2015 کوامریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کیا۔
ایگزکٹ کا جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل دنیا بھر میں پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنا کیونکہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری، پیسے چھاپنے اور لوگوں کو بلیک میل کرنے کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا چکی تھی۔
کمپنی کا اسکینڈل سامنے آنے پر حکومت، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے مل کر بھرپور کارروائی کی اور کمپنی کے مالک شعیب شیخ، وقاص عتیق سمیت جعلی ڈگری کا دھندا کرنے والے کئی افراد حراست میں لے لیے گئے۔
عالمی جریدوں اور ٹی وی چینلز نے اس معاملے پر کڑی تنقید کی جبکہ امریکا میں فرنٹ مین پکڑا گیا جسے اعتراف جرم اور بھانڈا پھوڑنے کے بعد سزا ہوئی۔
جعلی ڈگری اسکینڈل کے خلاف پاکستان میں کراچی اور اسلام آباد میں مقدمات درج ہوئے، کارروائیاں تیز کی گئیں مگر پھر کارروائی کی راہ میں چند پراسرار موڑ آئے۔
چار پراسیکیوٹرز کا استعفی
دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے والا جعلی ڈگری بنانے والی کمپنی کا مالک شعیب شیخ ضمانت پر رہا ہو گیا اور دیگر ملزمان کو بھی ضمانتیں مل گئیں۔
سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز القادر میمن نے ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تو ایف آئی اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
ملزمان کو بری کرنے والے سابق جج پرویزالقادرمیمن کے خلاف اسی مقدمہ میں رشوت لینے پر انکوائری کا سامنا بھی کرنا پڑا، سابق جج نے دو رکنی کمیٹی کے روبرو رشوت کا اعتراف کیا تاہم بعد میں اس سے انکار کر دیا تھا۔
اب شعیب شیخ و دیگر کی بریت کے خلاف ایف آئی اے کی اپیل کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے کی مگر ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہی نا ہوئے۔
عدالت نے ایف آئی اے کی اپیل کی سماعت بغیر کارروائی کے ملتوی کردی اور یہ معاملہ اب جوں کا توں خفیہ قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔