16 جنوری ، 2018
لندن: دنیا بھر میں جعلی ڈگریوں کا دھندا کرنے والی بدنام زمانہ کمپنی ایگزیکٹ کی جانب سے ہزاروں برطانوی شہریوں کو بھی جعلی ڈگریاں فروخت کرنے اور دھمکیاں دے کر پیسے اینٹھنے کا انکشاف ہوا ہے۔
اس بات کا انکشاف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک رپورٹ میں کیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ میں ہزاروں برطانوی شہریوں کے ڈگری فراڈ کا نشانہ بننے کے انکشاف کے بعد برطانیہ میں کھلبلی مچ گئی ہے کیونکہ ایگزکٹ کی جعلی ڈگریاں لینے والوں میں ڈاکٹرز، نرسیں اور محکمہ دفاع کے کنٹریکٹرز بھی شامل ہیں۔
بی بی سی کے مطابق ہیلی پائلٹس سمیت محکمہ دفاع کے 7 کنٹریکٹرز کے پاس بھی ایگزیکٹ کی جعلی ڈگریاں نکلی ہیں۔
برطانوی محکمہ تعلیم کا ڈگری فراڈ کیخلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ڈگری فراڈ ذہین طلباء اور ملازمت دینے والوں سے دھوکا ہے جس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2015 میں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے بعد پاکستان میں ایگزیکٹ کے خلاف شروع کی گئی کارروائی روک دی گئی ہے جب کہ ایگزیکٹ نے نہ صرف جعلی ڈگریوں کا دھندا جاری رکھا ہوا ہے بلکہ اپنے کلائنٹس کو دھمکا کر رقم اینٹھنا بھی شروع کر دی ہے۔
ایک برطانوی شہری کی 5 لاکھ پاؤنڈ تک کی ادائیگی
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک شہری نے جعلی دستاویز حاصل کرنے کے لیے 5 لاکھ پاؤنڈ تک کی ادائیگی کی۔
ایگزیکٹ نے 2015 میں 350 جعلی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ناموں پر دنیا بھر میں 2 لاکھ 15 ہزار جعلی ڈگریاں 5 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز میں فروخت کیں۔
ایگزیکٹ کے معاملات کی 1980 سے تحقیقات کرنے والے ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ ایلن ایزل کا کہنا ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ڈگریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
ایف بی آئی ایجنٹ نے مزید کہا کہ جب تک کاغذ کی اہمیت ہو گی تو کوئی نا کوئی تو اس میں تبدیلی کر کے اسے پرنٹ کرے گا اور پھر اسے فروخت کرے گا۔
ایلن ایزل نے کہا کہ نوکریاں دینے والے ادارے اس حوالے سے جانچ پڑتال نہیں کر رہے اس لیے جعلی کاغذ کام کرتا ہے اور ہم نے دنیا بھر میں جعلی ڈگریوں اور دستاویزات کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ دیکھی ہے۔
جعلی ڈگری کیس کی ابتداء
دنیا بھر میں جعلی ڈگری کے کاروبار کرنے والی کمپنی ایگزیکٹ کا انکشاف 18 مئی 2015 کوامریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کیا۔
ایگزکٹ کا جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل دنیا بھر میں پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنا کیونکہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری، پیسے چھاپنے اور لوگوں کو بلیک میل کرنے کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا چکی تھی۔
کمپنی کا اسکینڈل سامنے آنے پر حکومت، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے مل کر بھرپور کارروائی کی اور کمپنی کے مالک شعیب شیخ، وقاص عتیق سمیت جعلی ڈگری کا دھندا کرنے والے کئی افراد حراست میں لے لیے گئے۔
عالمی جریدوں اور ٹی وی چینلز نے اس معاملے پر کڑی تنقید کی جبکہ امریکا میں فرنٹ مین پکڑا گیا جسے اعتراف جرم اور بھانڈا پھوڑنے کے بعد سزا ہوئی۔
جعلی ڈگری اسکینڈل کے خلاف پاکستان میں کراچی اور اسلام آباد میں مقدمات درج ہوئے، کارروائیاں تیز کی گئیں مگر پھر کارروائی کی راہ میں چند پراسرار موڑ آئے۔
چار پراسیکیوٹرز کا استعفی
دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے والا جعلی ڈگری بنانے والی کمپنی کا مالک شعیب شیخ ضمانت پر رہا ہو گیا اور دیگر ملزمان کو بھی ضمانتیں مل گئیں۔
سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز القادر میمن نے ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تو ایف آئی اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
ملزمان کو بری کرنے والے سابق جج پرویزالقادرمیمن کے خلاف اسی مقدمہ میں رشوت لینے پر انکوائری کا سامنا بھی کرنا پڑا، سابق جج نے دو رکنی کمیٹی کے روبرو رشوت کا اعتراف کیا تاہم بعد میں اس سے انکار کر دیا تھا۔
اب شعیب شیخ و دیگر کی بریت کے خلاف ایف آئی اے کی اپیل کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے کی مگر ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہی نا ہوئے۔
عدالت نے ایف آئی اے کی اپیل کی سماعت بغیر کارروائی کے ملتوی کردی اور یہ معاملہ اب جوں کا توں خفیہ قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔