21 جنوری ، 2018
لاہور: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دے دی۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قصور میں7 سالہ معصوم زینب سے زیادتی اور قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران متاثرہ بچوں اور بچیوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جےآئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں زینب قتل کیس کے سلسلے میں اب تک کی تحقیقات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جون 2015 کے بعد سے یہ آٹھواں واقعہ ہے اور 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کے نمونے لیے گئے ہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے پولیس تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے مشورہ دیا کہ 'آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر روایتی طریقے اپنائے'۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا، 'جو پولیس کر رہی ہے، اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا'۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ '2 تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے، کسی نے انکوائری کیوں نہیں کی؟ اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی؟'
جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ 'اگر پولیس 2015 میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں'۔
سماعت کے دوران پنجاب فرانزک کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر اشرف بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بند کمرہ سماعت کے دوران ملٹی میڈیا پر بریفنگ دی۔
ڈاکٹر طاہر اشرف کا کہنا تھا کہ جو ویڈیو ہم نے دیکھی، یقین نہیں ہے کہ یہ اسی بچی کی ہے'۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے بند کمرے کی کاروائی کا تحریری حکم جاری کر دیا اور تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹے کی مہلت دی دی۔
واضح رہے کہ تفتیشی اداروں کی جانب سے تفتیش مکمل کرنے اور کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کے لیے مہلت مانگی گئی تھی۔
یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔
زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
بعدازاں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔
تاہم 16 جنوری کو سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کو واقعے پر سماعت سے روکتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ ہائیکورٹ کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار نہیں لہذا لاہور ہائیکورٹ میں مقدمے کی سماعت روک رہے ہیں۔
واضح رہے کہ کئی گزرنے کے باوجود بھی زینب کا قاتل اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
تحقیقات کے سلسلے میں قصور میں 100 سے زائد افراد کے ڈی این اے بھی لیے جاچکے ہیں تاہم ابھی تک اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔