16 جنوری ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے زینب قتل پر لاہور ہائیکورٹ کو سماعت سے روک دیا جب کہ دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زینب قتل کیس حل نہ ہوا تو پولیس اور حکومت کی ناکامی ہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے زینب قتل از خود نوٹس کیس کی پہلی اور مختصر سماعت کی۔
عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کو سماعت سے روکتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار نہیں، لاہور ہائیکورٹ میں مقدمے کی سماعت روک رہے ہیں۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے زینب قتل پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
زینب قتل پر چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل آئی جی پنجاب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، جنہیں مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پوری قوم واقعے پر دکھی ہے بتایا جائے کیا پیشرفت ہوئی۔
جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ تحقیقات اور تفتیش پر کام ہو رہا ہے، ڈیڑھ سال میں اس نوعیت کے 8 واقعات ہوچکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل آئی جی پنجاب کو کہا کہ اگر آپ اپنی تحقیقات چیمبر میں بتانا چاہتے ہیں تو بتا دیں، ابھی تک ایک بھی پیشرفت نظر نہیں آرہی۔
ایڈیشنل آئی جی پنجاب نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کا وقت نہیں دے سکتے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ بندہ پکڑا جائے اور مقابلے میں مارا جائے، یقین ہونا چاہیے کہ ملزم گرفتار ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ زینب کے ساتھ زیادتی کرنے والا شخص سیریل کلر معلوم ہوتا ہے، طیبہ تشدد کیس بھی ہمارے پاس ہے، بچوں کے ساتھ معاملات پر پارلیمنٹ سے ابھی تک کوئی قانون نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی ناقص تفتیش سے لوگ بری ہوجاتے ہیں، ہر کیس میں وہی غلطیاں کی جاتی ہیں، مسئلہ حل نہ ہوا تو حکومت اور پولیس کی ناکامی ہوگی۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ تحقیقات میں نقائص کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے، ہم تحقیقات اور تفتیش میں نقائص سے متعلق کانفرنس کریں گے اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کا آپس میں اجنبی پن ختم کرنا ہے، بار بار کہتا ہوں پارلیمنٹ سپریم ہے اور پارلیمنٹ بھی اس سلسلے میں اقدامات کرے اور اصلاحات کے معاملے پر اراکین ملنا چاہیں تو تیار ہوں۔
سپریم کورٹ نے زینب قتل از خود نوٹس کی سماعت اتوار 21 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے تمام تحقیقاتی ٹیم کو طلب کرلیا جب کہ اگلی سماعت لاہور میں ہوگی۔
خیال رہے کہ قصور کی 7 سالہ رہائشی زینب کو 4 جنوری کو اغوا کیا گیا جس کے بعد 9 جنوری کو اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی، زینب کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔
8 روز گزرنے کے باوجود زینب کا قاتل اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا جب کہ 100 سے زائد مشکوک افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ حاصل کرنے کے باوجود ابھی تک اصل ملزم کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔