راؤ انوار کا نقیب اللہ قتل کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیشں ہونے سے انکار



کراچی: قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل پر بننے والی تحقیقاتی کمیٹی نے 11 بجے سابق سینئر سپریٹینڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر  راؤ انوار کو ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں طلب کیا ہے تاہم انہوں نے پیش ہونے سے انکار کردیا۔

ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے جیو نیوز کے پروگرام ’’لیکن‘‘میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جیو نیوز کے توسط سے راؤ انوار کو کہتے ہیں کہ آج رات گیارہ بجے ان کا انتظار کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ راؤ انوار کے مطابق نقیب اللہ کے بارے میں انہیں جیل میں قید قاری احسان نے بتایا تاہم جب تحقیقاتی کمیٹی نے قاری احسان سے پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ وہ نقیب اللہ کوئی اور تھا۔

ڈی آئی جی ایسٹ کا کہنا تھا کہ راؤ انوار نے فون بند کردیے ہیں، انہیں وائرلیس پیغام کیا ہے۔

دوسری جانب راؤ انوار نے 11 بجے ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں پیش ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کہ کل ایک بجے ایس ایس پی کے دفتر میں پیش ہونے کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا۔

’ہم پر کوئی دباؤ نہیں‘

بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں سلطان خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں تھانوں سے نقیب اللہ کے خلاف کوئی رکارڈ نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ معاملے پر ہم پر کوئی دباؤ نہیں، سپریم کورٹ کےحکم کی تعمیل کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو طلب کیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے، ان کے نمبر بھی بند جارہے ہیں۔

سلطان خواجہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا پولیس کو بھی نقیب اللہ کا کوئی کرمنل رکارڈ نہیں ملا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ راؤ انوار پر مبینہ خودکش حملے کی تحقیقات کیلئے افسران کو لکھ دیا ہے۔

راؤ انوار کو پولیس پارٹی سمیت گرفتار کرنے کا فیصلہ

اس سے قبل ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو پولیس پارٹی سمیت گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

ذرائع کے مطابق آج آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوران راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں اسپشل برانچ، تحقیقاتی ٹیم اور اعلیٰ حکام نےشرکت کی جس میں ضلع ملیر کے تمام ایس ایچ اوز کی تبدیلی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو اعتماد میں لے کر اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق راؤ انوار کے دست راز 16 پولیس اہلکاروں کو بھی عہدے سے بٹادیا گیا جن میں ایس پی ڈاکٹر نجیب اللہ، افتخار لودھی اور سیف اللہ شامل ہیں۔

ہٹائے گئے افسران میں 3 ایس پی، 2 ڈی ایس پی اور 10 ایس ایچ اوز شامل۔

نئے ایس ایس پی ملیر عدیل چانڈیو کی ٹیم میں شامل افسران کو فوری چارج لینے کا حکم دے دیا گیا جبکہ شبیر بلوچ کو ملیر میں ایس پی تعینات کردیا گیا اور گڈاپ کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا۔

راؤ انوار کا تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد

ادھر راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ چار بار رابطے کے باجود انکوائری میں پیش ہونے کے لیے نہیں بلایا گیا، حقائق جاننے کے بجائے بدنام کیا جارہا ہے۔

راؤ انوار نے کہا کہ کمیٹی نے پولیس پارٹی سےتفتیش کی اور اس کے بعد سے ایس ایچ او نے نمبر بند کیا ہوا ہے، مقابلہ ایس ایچ او نے کیا تاہم انکوائری میرے خلاف ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شدید دھمکیوں کے بعد بھی پولیس کے لیے کام کیا، ہر مقابلے کے بعد سامنے آکر ذمے داری قبول کی تاکہ پولیس کا مورال بڑھے۔

’راؤ انوار کیخلاف قتل کا مقدمہ درج ہوگا‘

تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ثناءاللہ عباسی نے کہا کہ راؤ انوار، ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن اور پولیس پارٹی کیخلاف قتل کا مقدمہ درج ہوگا۔

انہوں نے آئی جی خیبرپختون خوا سے رابطے کے بعد کہا کہ کے پی پولیس نے نقیب اللہ کی فیملی کو سیکیورٹی فراہم کردی ہے۔

’نقیب اللہ بشر دوست آدمی تھا‘

مقتول نقیب کے والد، بھائی اور سسر نے ان پر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نقیب اللہ بشر دوست آدمی تھا۔ 

جنوبی وزیرستان میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نقیب اللہ کے والد کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا دہشت گرد ،شرپسند اور ظالم نہیں بلکہ بشر دوست انسان تھا، آرمی چیف، وزیراعظم اور چیف جسٹس انہیں انصاف دیں۔

نقیب اللہ کے بڑے بھائی فرید اللہ نےکہا کہ اس نے بھائی کو کاروبار کیلئے 5 لاکھ روپے دیئے تھے، اگر نقیب کے پاس 70 لاکھ ہوتے تو اس کا باپ اور وہ مزدوری نہیں کرتے۔ 

 فرید اللہ کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ کا نام ماں نے رکھا تھا جبکہ والد پیار سے اسے نسیم اللہ کہتے تھے اور والد کے پیار ہی کی وجہ سے نقیب نے شناختی کارڈ نسیم اللہ کے نام سے بنوایا تھا۔ 

نقیب کے سسر مرجان خان کا کہنا ہے کہ وہ خوش باش اور دوست انسان تھا۔

نقیب اللہ کی ہلاکت

یاد رہے کہ راؤ ا نوار نے 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقتول کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے تھا۔

تاہم نقیب کے اہلخانہ نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا۔

بعدازاں سوشل میڈیا اور میڈیا پر معاملہ اٹھنے کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی تھی۔

تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس پارٹی کے سربراہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی جس پر انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

دوسری جانب نقیب اللہ کے قتل میں ملوث پولیس پارٹی کو بھی معطل کیا جاچکا ہے۔

مزید خبریں :