ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے زینب کا قاتل گرفتار

لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے تصدیق کردی ہے کہ قصور کی رہائشی زینب انصاری سے زیادتی اور قتل میں ملوث سیریل کلر محمد عمران کو ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد، وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ اور قاتل کو پکڑنے میں معاونت کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔

شہباز شریف نے کہا کہ زینب کے قتل کے بعد ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل کی دی گئی تھی جس نے 14 روز کی انتھک محنت کے بعد ملزم کو گرفتار کیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لیے 1150 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے گئے اور 1108 واں ڈی این اے ٹیسٹ محمد عمران کا تھا، ڈی این اے سے 100 فیصد تصدیق کے بعد اس کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی لیا گیا جس میں ملزم محمد عمران نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔

’محمد عمران قصور کا رہائشی اور سیریل کلر ہے‘
فوٹو: اسکرین گریب

شہباز شریف نے بتایا کہ زینب کا قاتل 24 سالہ محمد عمران قصور کا رہائشی اور ایک سیریل کلر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری میں پنجاب فرانزک لیب، سول اور ملٹری انٹیلی جنس اور جے آئی ٹیم نے انتھک محنت کی جس پر یہ لوگ شاباش کے مستحق ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ زینب کو دنیا میں واپس تو نہیں لا سکتے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری سے اس واقعے کا پہلا مرحلہ کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔

’دل چاہتا ہے قاتل کو چوک پر لٹکادیں لیکن ہم قانون کے تابع ہیں‘

وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ زینب کے والد اور میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اس درندے کو چوک پر لٹکا دیا جائے لیکن ہم سب قانون کے تابع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے کہیں گے کہ اس واقعے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچائیں، انسداد دہشت گردی کی عدالت میں یہ کیس چلے گا اور اس میں بلا تاخیر تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

’حساس معاملات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے‘

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ ایسے حساس معاملات پر سیات نہیں کرنی چاہیے، چاہے وہ قصور کی زینب ہو یا مردان کی عاصمہ سب ہماری بیٹیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے عاصمہ کے قاتلوں کی گرفتاری میں مدد کے لیے رابطہ کیا ہے، انہیں یقین دلاتا ہوں کہ پنجاب کی فرانزک لیب اس معاملے میں مکمل تعاون کرے گی۔

انہوں نے کراچی میں قتل ہونے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے کیس میں بھی مکمل تعاون کی پیشکش کی۔

پنجاب فرانزک سائنس لیب نہ ہوتی تو مجرم نہ پکڑا جاتا، ڈی جی لیب

زینب قتل کی تحقیقات کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والی پنجاب فرانزک لیب کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ انہیں محمد عمران کا ڈی این اے سیمپل 20 جنوری کو موصول ہوا جس کے نمونے چیک کیے گئے۔

ڈی جی فرانزک لیب نے کہا کہ اگر پنجاب فرانزک سائنس لیب نہ ہوتی تو مجرم نہ پکڑا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کی آبادی تقریباً 7 ارب ہے اور ہر شخص کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، محمد عمران کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوا ہے کہ اسی نے یہ جرم کیا ہے۔

اس موقع پر موجود زینب کے والد نے بھی ملزم کی گرفتاری پر تمام افراد کا شکریہ ادا کیا۔

عمران ہی زینب سمیت 8 بچیوں کے قتل میں ملوث ہے

قبل ازیں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ زینب قتل کیس میں گرفتار ہونے والے ملزم عمران کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہی زینب سمیت 8 بچیوں کے قتل میں ملوث ہے۔

زینب قتل کیس میں گرفتار ملزم محمد عمران کا ڈی این اے ٹیسٹ لیا گیا جس سے ثابت ہوا ہے کہ وہی نا صرف زینب بلکہ دیگر 7 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات میں بھی ملوث ہے۔

قاتل کو اسپیشل برانچ کی مدد سے گرفتار کیا گیا

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم عمران کو اسپیشل برانچ کی مدد سے پاک پتن سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد ملزم کو لاہور پہنچایا گیا۔

پولیس نے 7 سالہ زینب کے قتل کے شبہ میں ملزم عمران کو پہلے بھی حراست میں لیا تھا لیکن پھر بچی کے رشتے داروں کے کہنے پر اسے چھوڑ دیا گیا تھا، تاہم ڈی این اے میچ ہوجانے کے بعد پولیس نے ملزم کو دوبارہ گرفتار کرلیا۔

پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔

ملزم عمران کا زینب کے گھر آنا جانا تھا، ذرائع

ذرائع کے مطابق ملزم مقتول بچی کا دور کا رشتے دار اور زینب کے گھر کے قریب کورٹ روڈ کا رہائشی ہے جب کہ ملزم غیر شادی شدہ اور اس کی عمر 24 سال ہے۔

ذرائع کے مطابق مقتول بچی اور ملزم کے گھر والوں کے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا اور ملزم بچی کو اکثر باہر لے جایا کرتا تھا۔

ذرائع کا یہ بھی بتانا تھا کہ زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ملزم پہلے پاک پتن فرار ہوا اور پھر وہاں سے عارف والا چلا گیا تھا جبکہ اس نے اپنی داڑھی بھی منڈھوا لی تھی۔

گرفتار مبینہ ملزم عمران علی کی تصویر

 زینب کے قتل کے بعد سامنے آنے والی سی سی ٹی وی ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کی داڑھی تھی۔

ذرائع کے مطابق ملزم کو دوسرے شہر سے گرفتار کرکے لایا گیا، اس کا دوبارہ ڈی این  اے کرایا گیا اور اس بار ڈی این اے میچ کرگیا، جس کی رپورٹ پولیس کو موصول ہوگئی ہے۔

پولیس کا کہنا ہےکہ ملزم عمران کے اہل خانہ کو بھی حراست میں لے کر انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جہاں ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ ملزم کے ڈی این اے کے بعد اسے پولی گرافی ٹیسٹ کے لیے فرانزک لیب بھیجا گیا جہاں اس کا پولی گرافی ٹیسٹ بھی مثبت آیا اور ملزم کا جھوٹ پکڑا گیا ۔

ترجمان پنجاب حکومت کی تصدیق

اس سے قبل پنجاب حکومت کے ترجمان نے بھی عمران نامی شخص کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زینب کے قتل میں اسی شخص کے ملوث ہونے کا قومی امکان ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا  کہ ملزم کو پاک پتن کے قریب سے گرفتار کیا گیا، ملزم اپنا حلیہ تبدیل کرتا رہا ہے۔

زینب کے اہلخانہ کا مجرم کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ

زینب قتل کیس کے ملزم کی گرفتاری کی اطلاعات پر زینب کے والد محمد امین نے اپنے رد عمل میں کہا کہ ’اب تک کی تحقیقات سے مطمئن ہوں، ملزم کی تصدیق کے بعد ہی کوئی مؤقف دے سکیں گے‘۔

انہوں نے گرفتار کیے جانے والے عمران نامی شخص سے رشتہ داری کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عمران کا ہماری فیملی سے کوئی تعلق نہیں البتہ وہ علاقے کا رہائشی لگ رہا ہے۔

زینب کے اہل خانہ نے مجرم کو سرعام پھانسی کی سزا دینے اور عبرت کا نشان بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

زینب کا اغواء اور قتل

یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔

زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعدازاں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔

21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔

بچوں کو جنسی استحصال سے کیسے بچائیں


مزید خبریں :