28 جنوری ، 2018
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کے ہاتھوں نوجوان انتظاراحمد کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آگئی جس کے مطابق ملزمان نے گھات لگا کر انتظار کو گھیر کر قتل کیا، فائرنگ سیاہ رنگ کی کار میں موجود شخص کے اشارہ کے بعد کی گئی۔
فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاہ رنگ کی ایک کار نے انتظار کی گاڑی کا راستہ روکا، جس کے ساتھ ہی موٹرسائیکل سوار دو افراد اس طرح نمودار ہوئے جیسے وہ انتظار کی کار کا تعاقب کر رہے ہوں۔
موٹرسائیکل سوار ایک ملزم نے اتر کر کار کا جائزہ لیا، اسی دوران مزید ایک سیاہ رنگ کی کار انتظار کی گاڑی کے برابر آکر رکی جس کے بعد موٹرسائیکل سوار ایک سائڈ پر ہوگئے،چند سیکنڈوں بعد انتظار کی کار دائیں جانب بڑھنے لگی جبکہ سائیڈ پر موجود موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ شروع کر دی۔
ایک ملزم کو پیدل کار کے پیچھے فائرنگ کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے، ملزمان کی جانب سے 18 گولیاں چلائی گئیں جن میں سے ایک گولی انتظار کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔
انتظار کی کار روکنے والے کون تھے، بعد میں آنے والی کار میں کون سوار تھے، انتظار کی کار میں بھی ایک لڑکی سوار تھی جسے کلین چٹ دے دی گئی۔
سی سی ٹی وی فوٹیج نے انتظار قتل کیس میں مزید سوالات پیدا کر دیے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قتل کا ماسٹر مائنڈ کوئی اور ہے اور پولیس اہلکاروں کو صرف استعمال کیا گیا ہے۔
14 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد ہلاک ہوگیا تھا، نوجوان کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی تھی۔
مقتول انتظار کے والدین کی پریس کانفرنس پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور واقعے کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تھا۔
پولیس نے ابتدائی طور پر بیان دیا تھا کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں نے گاڑی مشکوک سمجھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئ جس سے نوجوان ہلاک ہوگیا۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق جائے وقوعہ سے گولیوں کے 16 خول ملے تھے جب کہ مقتول کی گاڑی میں ایک لڑکی موجود تھی جو بعد میں رکشے میں چلی گئی، اس لڑکی کی شناخت بعد میں مدیحہ کیانی کے نام سے ہوئی۔
مدیحہ کیانی نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ اس کی ایک ہفتہ پہلے ہی انتظار سے دوستی ہوئی تھی اور اس نے فائرنگ کرنے والوں کو نہیں دیکھا۔
دوسری جانب مقتول کے والد کی جانب سے دشمنی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا واقعے سے 2 روز قبل دو لڑکوں فہد اور حیدر سے جھگڑا ہوا تھا، ایک لڑکا پولیس افسر اور دوسرا وکیل کا بیٹا ہے۔