01 فروری ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں 13 جنوری کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے بعد چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کا وقت دے دیا۔
دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے میڈیا کو راؤ انوار کا بیان نشر نہ کرنے کا حکم بھی دیا۔
واضح رہے کہ نقیب اللہ کو مقابلے میں مارنے والے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار بدستور مفرور ہیں، عدالت عظمیٰ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کو راؤ انوار کو 3 دن میں گرفتار کرنے کی مہلت دی تھی جو منگل (30 جنوری) کو ختم ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نقیب قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
آج سماعت کے دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور سول ایوی ایشن کا نمائندہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا۔
آئی جی سندھ نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کہا جائے کہ راؤ انوار کی گرفتاری میں ان کی معاونت کریں۔
جس پر سپریم کورٹ نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سندھ پولیس کی معاونت کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، انٹرسروسز انٹیلی جنسی (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) راؤ انوار کو ڈھونڈنے میں پولیس کو مکمل سپورٹ فراہم کریں۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا، 'ہم نے راؤ انوار کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم بھی دیا ہے، اگر وہ عدالت نہ آئے یقینی طور پر قانون کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی ہوگی'۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ کو راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کا وقت دے دیا۔
ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے میڈیا کو ہدایت کی کہ راؤ انوار کا کوئی آڈیو یا وڈیو پیغام نشر نہ کیا جائے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے کام جاری رکھنے پر سپریم کورٹ پر تنقید ہوئی'۔
جس پر آئی جی سندھ نے جواب دیا، 'آپ کہتے ہیں تو ابھی عہدہ چھوڑنے کو تیارہوں'۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا، 'ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہی اس کیس کو فالو کریں۔'
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے نمائندہ سول ایوی ایشن سے استفسار کیا کہ پاکستان سے جو پرائیویٹ جہاز استعمال ہوئے ان کا ریکارڈ دیں۔
نمائندہ سول ایوی ایشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ '4 آپریٹرز ہیں، جنہوں نے اُس وقت ایئرپورٹ سےآپریٹ کیا اور چاروں آپریٹرز نے بیان حلفی دیا ہے کہ راؤ انوار ان کے ذریعے ملک سے باہر نہیں گئے'۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔
بعدازاں نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
بعدازاں آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کی، جس کے باعث انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔
گذشتہ ماہ 27 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔
جس کے بعد انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ نے راؤ انوار کا سراغ لگانے کے لیے حساس اداروں سے بھی مدد مانگ لی اور ان کی تلاش میں چھاپے بھی مارے گئے لیکن تاحال راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔