پاکستان
Time 03 فروری ، 2018

انتظار قتل کیس میں پولیس نے تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کردیے


کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کے ہاتھوں نوجوان انتظاراحمد کے قتل کے مقدمے میں پولیس نے تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کردیے۔

تفتیشی افسر پولیس فائل کے بغیر ہی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ پہنچ گئے اور عدالت سے مزید مہلت کی استدعا کی۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے لہٰذا رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

پولیس فائل نہ ہونے کی وجہ سے دلائل نہ دیے جاسکے جبکہ عدالت نے تفتیشی افسر کو 10 فروری کو فائل سمیت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے ملزمان میں سے ایک ملزم طارق رحیم کی عبوری ضمانت میں بھی آئندہ سماعت تک توسیع کردی۔ اس وقت 8 ملزمان زیر حراست میں جن میں ایس ایچ او طارق محمود، غلام عباس، اظہر احسن، فواد خان، دانیال، بلال اور شاہد شامل ہیں۔

مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نئی جے آئی ٹی کے قیام کا علم نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش ہوئے تھے لیکن وہاں بھی ان کے مؤقف کو مکمل طور پر نہیں سنا گیا، انہیں اور ان کے وکیل کو نئی جے آئی ٹیم کا کوئی علم نہیں۔

مقتول کے والد نے کہا ہے کہ وہ تفتیش سے بالکل مطمئن نہیں ہیں جس پولیس نے بیٹے کو گھیر کر مارا وہ پیٹی بند بھائیوں کو بچا رہی ہے۔

انتظار قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج

28 جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کے ہاتھوں نوجوان انتظاراحمد کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آگئی تھی جس کے مطابق ملزمان نے گھات لگا کر انتظار کو گھیر کر قتل کیا، فائرنگ سیاہ رنگ کی کار میں موجود شخص کے اشارہ کے بعد کی گئی۔

فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاہ رنگ کی ایک کار نے انتظار کی گاڑی کا راستہ روکا، جس کے ساتھ ہی موٹرسائیکل سوار دو افراد اس طرح نمودار ہوئے جیسے وہ انتظار کی کار کا تعاقب کر رہے ہوں۔

موٹرسائیکل سوار ایک ملزم نے اتر کر کار کا جائزہ لیا، اسی دوران مزید ایک سیاہ رنگ کی کار انتظار کی گاڑی کے برابر آکر رکی جس کے بعد موٹرسائیکل سوار ایک سائڈ پر ہوگئے،چند سیکنڈوں بعد انتظار کی کار دائیں جانب بڑھنے لگی جبکہ سائیڈ پر موجود موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ شروع کر دی۔

ایک ملزم کو پیدل کار کے پیچھے فائرنگ کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے، ملزمان کی جانب سے 18 گولیاں چلائی گئیں جن میں سے ایک گولی انتظار کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔

انتظار کا قتل

14 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد ہلاک ہوگیا تھا، نوجوان کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی تھی۔

مقتول انتظار کے والدین کی پریس کانفرنس پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور واقعے کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تھا۔

پولیس نے ابتدائی طور پر بیان دیا تھا کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں نے گاڑی مشکوک سمجھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئ جس سے نوجوان ہلاک ہوگیا۔

پولیس کی تحقیقات کے مطابق جائے وقوعہ سے گولیوں کے 16 خول ملے تھے جب کہ مقتول کی گاڑی میں ایک لڑکی موجود تھی جو بعد میں رکشے میں چلی گئی، اس لڑکی کی شناخت بعد میں مدیحہ کیانی کے نام سے ہوئی۔

مدیحہ کیانی نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ اس کی ایک ہفتہ پہلے ہی انتظار سے دوستی ہوئی تھی اور اس نے فائرنگ کرنے والوں کو نہیں دیکھا۔

دوسری جانب مقتول کے والد کی جانب سے دشمنی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا واقعے سے 2 روز قبل دو لڑکوں فہد اور حیدر سے جھگڑا ہوا تھا، ایک لڑکا پولیس افسر اور دوسرا وکیل کا بیٹا ہے۔

مزید خبریں :