کامران ٹیسوری کی ’معطلی‘، ایم کیو ایم پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگئی


کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کامران ٹیسوری کی پارٹی رکنیت سے 6 ماہ کی معطلی اور رابطہ کمیٹی سے خارج کرنے کے معاملے پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔

رابطہ کمیٹی نے کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینر رابطہ کمیٹی کے عہدے سے فارغ کرتے ہوئے انہیں 6 ماہ کے لیے معطل کردیا تاہم اس فیصلے کی پارٹی کنوینر فاروق ستار نے مخالفت کرتے ہوئے اس اقدام کو ’غیر آئینی‘ قرار دے دیا۔

رابطہ کمیٹی کے رکن خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کامران ٹیسوری کو معطل کرنے اور  رابطہ کمیٹی سے خارج کرنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ فاروق ستار ہر حال میں کامران ٹیسوری کو سینیٹ کی رکینیت کا امیدوار بنانا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ روایات، اصولوں اور طریقہ کار کے تحت رابطہ کمیٹی نے ترتیب وار 6 سینیٹرز کے ناموں کو سینیٹ کی نشستوں کے لیے تجویز کیا تھا جن میں ڈپٹی کنوینر نسرین جلیل، فروغ نسیم، امین الحق، شبیر قائم خامی، عامر خان اور کامران ٹیسوری شامل تھے۔

انہوں نے بتایا کہ عامر خان نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پانچ امیدوار بچے تھے جن میں سے ابتدائی چار کو منتخب کیا گیا جو کہ رابطہ کمیٹی کا متفقہ فیصلہ تھا۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا ’فاروق ستار کی خواہش تھی کہ ہم دو ساتھیوں کی قربانیاں دے کر ہر حالت میں کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا امیدوار بنائیں، یہ اختیار کسی کو نہیں، رابطہ کمیٹی سب سے اوپر ہے، انفرادی طور پر فیصلہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔‘

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آج تک ایم کیو ایم کی تاریخ میں کسی بھی شخص کو مرکزی سیٹ اپ میں فوری طور پر شامل نہیں کیا گیا لیکن فاروق ستار کی خواہش پر کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی کا رکن بنایا گیا حالانکہ 80 فیصد اراکین نے اس کی مخالفت کی تھی۔

ان کا کہنا مزید کہنا تھا کہ ’یہ وہ تنظیم ہے جو عہدوں سے بھاگتا ہے اسے عہدے دیتی ہے۔ کامران ٹیسوری پارٹی میں نئے تھے شاید انہیں نہ پتہ ہو، انہیں وقتاً فوقتاً بتایا جاتا رہا، ہم انہیں ایڈجسٹ کرتے رہے‘

’ڈمی سربراہی مجھے منظور نہیں‘

دوسری جانب فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کے اجلاس کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دھوکا دے کر اور ان کا نام استعمال کرکے کارکنوں کو بہادر آباد بلایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈمی سربراہی مجھے منظور نہیں اور اس طرح وہ پارٹی کو نہیں چلا سکتے کہ پارٹی کے فیصلوں میں ان کی رائے شامل نہ ہو۔

فاروق ستار نے کہا کہ ’غیر قانونی‘ اجلاس بلانے والے آج کے کارکنوں کے اجلاس تک معطل ہیں اور ان کی جانب سے کیے گئے فیصلے بھی معطل کردیے گئے ہیں۔

سربراہ ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ ’میں 35 سال کی خدمت کے ریکارڈ کو سامنے رکھ کر بتانا چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ یہ نہیں، 15 ماہ سے مجھے ایک، ایک فیصلہ کرانے میں ہر ایک کی اگر منت کرنی پڑے تو ایسا سربراہ کہاں کا سربراہ۔‘

انہوں نے کہا کہ مجھے پارٹی کنوینر اور سربراہ کہا گیا لیکن میری مرضی کے بغیر اجلاس بلایا گیا،عزت و احترام دل سے ہوتا ہے، زبان سے نہیں، اگر 15 ماہ سے ہر فیصلے کی منت کرنی پڑے تو یہ کیسی عزت اور کیسا احترام ہے۔

فاروق ستار نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ایم کیو ایم پاکستان قومی جماعت بنے اور ترقی کرے، نئے آنے والوں کو گلے لگایا جائے، جگہ دی جائے، انہیں بھی آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے راستے بند نہ کیے جائیں۔

’آپ چاہتے ہیں کہ میں پارٹی کی سربراہی کروں تو میری حکمت کو بھی سمجھا جائے، پارٹی کی ضرورت کو سمجھا جائے، اگر میں غلط فیصلہ کررہا ہوں تو مجھے سربراہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

فاروق ستار نے اس موقع پر منگل کی شام کے ایم سی اسٹیڈیم میں کارکنوں کے اجلاس کا بھی اعلان کیا۔

فاروق ستار نے اس موقع پر ایم کیو ایم (حقیقی) کے سربراہ آفاق احمد کو تعاون کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ قوم کی خاطر آگے بڑھیں اور ہاتھ بڑھائیں۔

انہوں نے کہا کہ 1992 میں حقیقی بنی تھی، 2018 میں حقیقی نہیں بننے دیں گے۔

انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ کل ہونے والے کارکنوں کے اجلاس میں پاک سرزمین پارٹی کے کارکن بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان میں اختلافات

اس سے قبل سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر پارٹی سربراہ فاروق ستار اور رہنما عامر خان کے درمیان اختلافات کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں۔

پارٹی ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے بہادر آباد دفتر میں اجلاس جاری تھا جس کے دوران اختلافات سامنے آئے ہیں۔

اختلافات کے باعث فاروق ستار اجلاس سے اٹھ کر اپنی رہائش گاہ پی آئی بی کالونی چلے گئے جہاں انہوں نے اجلاس طلب کرلیا ہے۔

ترجمان ایم کیوایم پاکستان امین الحق نے بتایا کہ رابطہ کمیٹی نے مشترکہ طور پر کامران ٹیسوری کو امیدوار نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کارکنوں کا حق چھیننےکا اختیار کسی کو نہیں دیا جاسکتا، کامران ٹیسوری کو سینیٹر بنانے کی بات نہیں مان سکتے۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں سینیٹ کی نشستوں سے متعلق غور کیا جارہا تھا، پارٹی رہنماؤں کے درمیان کامران ٹیسوری کے نام پر اختلافات ہیں۔

ایم کیو ایم کارکنان نے پی آئی بی کالونی پہنچنا شروع کردیا ہے جہاں فاروق ستار کے حق میں نعرے بازی کی جارہی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ بہادر آباد کا اجلاس عامر خان کی زیر صدارت جاری ہے جس میں نسرین جلیل، فروغ نسیم، خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر، شبیر قائم خانی، امین الحق اور دیگر رہنما بھی شریک ہیں۔

اجلاس میں فروغ نسیم، نسرین جلیل، امین الحق اور شبیرقائم خانی کو سینیٹ کا امیدوار نامزد ک​یا گیا تھا جبکہ فاروق ستار کامران ٹیسوری کو نامزد کرنا چ​اہتے ہیں۔

کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم میں شمولیت

پاکستان مسلم لیگ فنگشنل کے رہنما کامران ٹیسوری نے 3 فروری 2017 کو ایم کیو ایم پاکستان میں باضابطہ شمولیت اختیار کی تھی اور ان کے ہمراہ تاجر جہانزیب مغل نے بھی ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت کے موقع پر کامران ٹیسوری نے کہا تھا کہ وہ کراچی کے مسائل کے حل میں کردار ادا کرنے کے لیے ایم کیو ایم میں شامل ہورہے ہیں۔

اس کے بعد کامران ٹیسوری کو ایم کیو ایم پاکستان کا ڈپٹی کنوینر بنادیا گیا تھا جس پر پارٹی کے بعض رہنماؤں نے اعتراض بھی کیا تھا۔

بعد ازاں 3 دسمبر 2017 کو کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم پاکستان کے جلسوں میں شرکت سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد پارٹی میں اندرونی اختلافات کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں۔

کامران ٹیسوری نے کہ اتھا کہ وہ جلد ایک پریس کانفرنس کریں گے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے جب کہ انہوں نے تصدیق کی تھی کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کے باعث وہ گھر پر بیٹھ گئے ہیں۔

اس وقت یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو منانے کا ٹاسک اپنی والدہ کو دے دیا ہے۔

سینیٹ انتخابات

خیال رہے کہ آئندہ ماہ ایم کیو ایم پاکستان کے 8 میں سے 4 سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں جن میں کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی، ڈاکٹر فروغ نسیم، مولانا تنویر الحق تھانوی اور نسرین جلیل شامل ہیں۔ سینیٹ انتخابات 3 مارچ کو منعقد ہوں گے۔

سندھ کی دوسری سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم پاکستان سندھ کی 12 نشستوں پر انتخابات لڑے گی جہاں اسے 50 اراکین سندھ اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو صوبائی اسمبلی میں 94 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

مزید خبریں :