آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح: نواز شریف کا عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ

سابق وزیراعظم نواز شریف—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ کیس کی 31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل نے تیاری کے لیے سپریم کورٹ سے مہلت طلب کی تھی، جس پر عدالت عظمیٰ نے آئندہ ہفتے تک کا وقت دیا تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے آج اپنے وکیل ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ کے توسط سے اپنا جواب داخل کروایا۔

نواز شریف نے عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے جواب میں کہا کہ وہ درخواست گزار یا مقدمے میں فریق نہیں ہیں۔

نواز شریف نے اپنے جواب میں کہا، 'فریق ہوتا تو جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن سے مقدمے کی کارروائی سے الگ ہونے کی درخواست کرتا، جو میری اہلیت کے مقدمے میں شامل رہے اور اپنی رائے دے چکے ہیں'۔

سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں، وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'طے شدہ اصول ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا ان کا بنیادی حق ہے'۔

نواز شریف نے مزید کہا، 'آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی نہیں ہوسکتی اور اس میں پارلیمنٹ نے کسی مدت کا تعین نہیں کیا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نااہلی صرف اس الیکشن کے لیے ہوگی جس کو چیلنج کیا گیا ہو'۔

نواز شریف نے کہا، 'میں جمہوریت پر پختہ یقین رکھتا ہوں، انتخابات میں حصہ لینا پاکستان کے عوام کا حق ہے اور عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسے منتخب کریں یا کسے مسترد کریں'۔

سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ 'درست جمہوری عمل کے ذریعے عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا نا قابل تنسیخ حق ہے، ایسا نہیں کہ نکالنے کا عمل شروع کرکے عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے ایک مخصوص فہرست دے دی جائے'۔

آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔

دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔

جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔

اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔

ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔

مزید خبریں :