10 فروری ، 2018
کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف اسلام آباد میں گزشتہ کئی روز سے جاری قبائلیوں کا دھرنا حکومت کی جانب سے مطالبات کی منظوری کے بعد ختم کردیا گیا۔
دھرنے میں شامل قبائل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے حکومت کی جانب سے مطالبات کی منظوری کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے البتہ اگر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو دوبارہ دھرنا دے سکتے ہیں۔
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام نے مظاہرین سے ملاقات کی اور انہیں دھرنا ختم کرنے کے لیے آمادہ کیا۔
قبائلیوں کی جانب سے جو مطالبات کیے جارہے ہیں ان میں مفرور پولیس اہلکار راؤ انوار کی گرفتاری اور نقیب کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ سرفہرست تھا۔
خیال رہے کہ 6 فروری کو قبائلی عمائدین پر مشتمل جرگے نے وزیراعظم شاہد خاقان سے بھی ملاقات کی تھی جس کے دوران قتل کے ذمہ داران کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔
بعدازاں نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
27 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔
ان کی تلاش میں اسلام آباد میں بھی چھاپہ مارا گیا، لیکن راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
جس کے بعد سپریم کورٹ نے یکم فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران آئی جی سندھ کو راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت دی اور ساتھ ہی حساس اداروں کو بھی اے ڈی خواجہ کی معاونت کی ہدایت دی۔
بعدازاں آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کی، جس کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا ہوا ہے۔