Time 12 فروری ، 2018
پاکستان

آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح: سپریم کورٹ نے غیر حاضری پر اٹارنی جنرل کو جرمانہ کردیا


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس میں غیر حاضری پر اٹارنی جنرل کو 20 ہزار روپے جرمانہ کردیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح سے متعلق 13 درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی عدم حاضری پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کو مقدمات کے لیے نوٹس جاری کیا تھا، وہ موجود کیوں نہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 'اٹارنی جنرل معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کے جنازے کے لیے لاہور میں ہیں'۔

جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ 'عاصمہ جہانگیر کی وفات کا بہت صدمہ ہے، یہ ایک افسوسناک سانحہ ہے، لیکن کسی کے چلے جانے سے کام رُک نہیں جاتے'۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ 'کل اٹارنی جنرل بیرون ملک جارہے ہیں'، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا وہ گھومنے پھرنے جارہے ہیں'۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 'یہ اہم کیسز نہیں، ہم ان کی عام چھٹیوں کی درخواست مسترد کرتے ہیں'۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'اٹارنی جنرل سے بات کرتا ہوں، وہ آج ساڑھے 4 بجے تک عدالت میں حاضر ہوجائیں گے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو ساڑھے 4 بجے تک حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی لیکن وہ آج پیش نہ ہوسکے جس پر چیف جسٹس نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل کا عذر ناکافی ہے جب کہ عدالت نے ان پر 20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کردیا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل جرمانہ اپنی جیب سے ادا کریں اور جرمانے کی رقم فاطمیہ فاونڈیشن کو جائے گی۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو 14 فروری کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل پیش نہ ہوئے تو ان کا حق دفاع ختم کردیں گے۔

واضح رہے کہ مذکورہ کیس کی 8 فروری کو ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو دلائل کے لیے طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ تسلیم کرتے ہیں آرٹیکل 62 وین ایف مبہم ہے، اس کی تشریح مشکل ٹاسک ہوگا۔

آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔

دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔

جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔

اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔

ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے

تاہم واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

6 فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں، وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔

مزید خبریں :