پاکستان
Time 17 فروری ، 2018

زینب زیادتی و قتل کیس: مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت کا حکم


لاہور: انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور کی 7 سالہ زینب سے زیادتی و قتل کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت سنادی۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سجاد احمد نے زینب زیادتی و قتل کیس کا فیصلہ سنایا، جسے ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل قرار دیا جارہا ہے۔

سماعت کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر نے بتایا کہ مجرم عمران کو کُل 6 الزامات کے تحت سزائیں سنائی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ مجرم عمران کو ننھی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ 7 اے ٹی  اے کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔

دوسری جانب عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانے جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانےکی سزا بھی سنائی گئی۔

پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ سزائے موت کی توثیق کے لیے ریکارڈ ہائیکورٹ کو منتقل کرے گی، جہاں 2 رکنی بنچ مجرم عمران کی اپیل سنے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ہائیکورٹ آرڈر بھی مثبت آیا تو عمران سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل کے مطابق مجرم کے پاس اپیل کرنےکے لیے 15 دن ہیں جبکہ اس کے پاس صدر مملکت سے رحم کی اپیل کا حق بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تمام قانونی مراحل طے ہونے کے بعد عمران کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

پراسیکیوٹر جنرل نے مزید بتایا کہ عمران کے خلاف دس پندرہ دن میں دیگر واقعات کے ٹرائل مکمل ہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران سے عدالت نے آخری وقت تک پوچھا تو اس نے خدا کو حاضر ناظر جان کر اعتراف جرم کیا۔

پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سائنٹیفک تحقیق کی بنیاد پر مجرم کو سزا دی جارہی ہے اور ہم اُن ممالک میں شامل ہوگئے ہیں جہاں سائنسی بنیادوں پر ثبوتوں پر سزا دی جاسکتی ہے۔

مجرم کی سرعام پھانسی کا مطالبہ

قصور میں اغوا اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والی زینب کے والدین نے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت کے عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زینب کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ ایسا فیصلہ چاہتے تھے کہ جسے پوری دنیا یاد رکھے۔

اس موقع پر زینب کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کا اب بھی مطالبہ ہے کہ جس مقام پر زینب کو اغواء کیا گیا مجرم کو اسی جگہ پر سر عام سزا دی جائے۔

دوسری جانب زینب کے چچا نے بھی عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔

زینب کے بھائی کا کہنا تھا کہ 'مجھے خوشی ہے کہ میری بہن کے قاتل کو سزا دی گئی جب کہ اب بھی مطالبہ سرعام پھانسی دینے کا ہے'۔

دوسری جانب قصور میں قتل ہونے والی بچیوں ایمان فاطمہ اور عائشہ کے والدین نے بھی میڈیا سے گفتگو کی اور کہا کہ 'یہ فیصلہ زینب کا ہے باقی سات بچیوں کا نہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم بھی یہی چاہتے ہیں کے مجرم عمران کو سر عام پھانسی دی جائے'۔

زینب قتل کیس—کب کیا ہوا؟

واضح رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش گذشتہ ماہ 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔

زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔

بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور 21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی۔

جس کے بعد 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کی۔

ملزم عمران کے خلاف کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل ہوا، جس پر 12 فروری کو فرد جرم عائد کی گئی۔

زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں 4 دن تک روزانہ 9 سے 11 گھنٹے سماعت ہوئی، اس دوران 56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور 36 افراد کی شہادتیں پیش کی گئیں۔

سماعت کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گرافک ٹیسٹ اور 4 ویڈیوز بھی ثبوت کے طور پر پیش کی گئیں۔

15 فروری کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔

مزید خبریں :