پاکستان
Time 20 فروری ، 2018

قصور کی زینب کے قاتل عمران علی نے سزا کیخلاف اپیل کردی

لاہور: قصورکی معصوم زینب سے زیادتی اور سفاکانہ قتل میں ملوث مجرم عمران نے انسداد ِدہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے سنائے جانے والی سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کردی۔

انسداد ِدہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کے خلاف مجرم عمران کی اپیل جیل انتظامیہ نے لاہورہائیکورٹ میں دائر کی۔

مجرم نے اپیل میں خود کو بے گناہ ظاہر کیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے فیصلہ بڑی عجلت میں کیا جبکہ ٹرائل کے دوران قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کئے گئے۔

مجرم عمران نے استدعا کی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

خیال رہے کہ 17 فروری کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور کی زینب سے زیادتی و قتل کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت سنائی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سجاد احمد نے زینب زیادتی و قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا جسے ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل قرار دیا جارہا ہے۔

سماعت کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر نے بتایا تھا کہ مجرم عمران کو کُل 6 الزامات کے تحت سزائیں سنائی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ مجرم عمران کو ننھی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ 7 اے ٹی اے کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔

دوسری جانب عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانےکی سزا بھی سنائی گئی۔

زینب قتل کیس—کب کیا ہوا؟

واضح رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش گذشتہ ماہ 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔

زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔

بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور 21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی۔

جس کے بعد 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کی۔

ملزم عمران کے خلاف کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل ہوا، جس پر 12 فروری کو فرد جرم عائد کی گئی۔

زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں 4 دن تک روزانہ 9 سے 11 گھنٹے سماعت ہوئی، اس دوران 56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور 36 افراد کی شہادتیں پیش کی گئیں۔

سماعت کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گرافک ٹیسٹ اور 4 ویڈیوز بھی ثبوت کے طور پر پیش کی گئیں۔

15 فروری کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 17 فروری کو سنایا گیا۔