21 فروری ، 2018
سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 62، 63 پر پورا نہ اترنے والا نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت نہیں کرسکتا۔
فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف مسلم لیگ نواز کی صدارت کے لیے نااہل ہوگئے ہیں جنہیں پاناما کیس کے فیصلے میں آئین کی دفعہ 62، 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ساڑھے 4 بجے دوبارہ آئیں گے اور بتائیں گے کہ مختصر حکم دینا ہے یا فیصلہ کرنا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے تحریر کیے جانے والے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کا پارلیمنٹ کے امور میں بڑا مرکزی کردار ہوتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 203 اور232 کو آرٹیکل 62 اور63 اے کے ساتھ پڑھا جائے گا، آرٹیکل 62 اور63 کے تحت اہلیت نہ رکھنے والا شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا۔
ایسا شخص آرٹیکل 63 اے کے تحت پارٹی سربراہ یا کسی حیثیت میں کام نہیں کرسکتا۔
فیصلے میں نواز شریف کی جانب سے بطور مسلم لیگ نواز کے صدر تمام اقدامات، احکامات اور ہدایات کالعدم قرار دی گئیں۔
نواز شریف کے 28 جولائی کی نااہلی کے بعد بطور پارٹی سربراہ تمام احکامات کالعدم قرار دے دیے گئے جبکہ ان کی طرف سے بطور پارٹی سربراہ جاری دستاویزات بھی کالعدم دی گئیں۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن نوازشریف کا نام بطور پارٹی صدر مسلم لیگ ن ریکارڈ سے ہٹا دے۔
اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسرے ملکوں میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مختلف صورتحال ہے، پارٹی سربراہ کے گرد ساری چیزیں گھوم رہی ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہماری جان بھی اپنے لیڈر کے لئے حاضر ہے، یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور پارٹی سربراہ اہم ہوتا ہے اور اسی کے گرد ساری چیزیں گھومتی ہیں۔
اس موقع پر وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف عدالت کا فیصلہ موجود ہے، کیا میں غلط کام کرنے کے لئے اپنا بنیادی حق استعمال کرسکتا ہوں اور مفروضے پر پوچھ رہا ہوں کیا ڈرگ ڈیلر یا چور پارٹی لیڈر بن سکتا ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ قانون میں اخلاقی اقدار بنیادی نکتہ ہے، سیاسی جماعت ڈی ریگولیٹ نہیں رہ سکتی اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو سوال بھی نہیں پوچھ سکتا، ذہن میں اہم سوال آرہا تھا۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ ن کے ریکارڈ سے نوازشریف کا نام بطور صدر ہٹا دیا۔
الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کا نام مسلم لیگ ن کے ریکارڈ سے ہٹایا گیا۔ نواز شریف کا نام ریکارڈ سے 28 جولائی 2017 سے ختم سمجھا جائے گا۔
اس حوالے سے ن لیگ کے قائم مقام سیکرٹری جنرل احسن اقبال کو بذریعہ خط آگاہ کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ن لیگ کے آئین کے تحت سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس سات روز میں طلب کرنا سیکریٹری جنرل کی ذمہ داری ہے۔
ن لیگ کے آئین کے تحت 45 دن کے اندر صدر کے خالی عہدے پر انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر کا عہدہ 28 جولائی 2017 سے خالی ہوچکا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ مسلم لیگ ن کے صدر کے عہدے کو پارٹی کے آئین کے تحت پر کیا جائے۔
انتخابی اصلاحات کیس کا پس منظر
2 اکتوبر 2017 کو سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات بل 2017 منظوری کے بعد نواز شریف کے لئے پارٹی صدر بننے کے لئے راہ ہموار ہوئی۔
پاناما کیس کے فیصلے کے بعد نواز شریف پارٹی صدر کے لئے نااہل ہوگئے تھے اور پارلیمنٹ سے نئے بل کی منظوری کے بعد 3 اکتوبر کو وہ ایک مرتبہ پھر بلا مقابلہ پارٹی صدر منتخب ہوئے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے پارٹی صدر بننے اور پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری کے بعد تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں۔
یکم جنوری 2018 کو عدالت نے درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس پر سماعت کی جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت کے دوران عوامی مسلم لیگ کی جانب سے فروغ نسیم، تحریک انصاف کی جانب سے بابر اعوان اور پیپلز پارٹی کی جانب سے لطیف کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے۔