مشال خان کے والد نے انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے کے خلاف 5 اپیلیں دائر کردیں

مقتول مشال خان—۔فائل فوٹو

پشاور: مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام میں قتل کیے گئے طالبعلم مشال خان کے والد اقبال خان نے بھی اپنے بیٹے کے قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کردیں۔

مقتول مشال خان کے والد اقبال خان کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ میں 5 اپیلیں دائر کی گئی ہیں، جن میں عمر قید پانے والے 5 مجرمان کو سزائے موت دینے کی اپیل اور 4 سال کی سزا پانے والے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست کی گئی ہے۔

اقبال خان نے یہ اپیل بھی دائر کی ہے کہ سزائے موت پانے والے مرکزی مجرم عمران علی کو جس سیکشن میں بری قرار دیا گیا ہے، اس کے خلاف دوسری دفعات کے تحت بھی مقدمہ چلایا جائے۔

جبکہ 26 ملزمان کی بریت کے خلاف بھی اپیل کی گئی ہے۔

اس سے قبل مقتول کے بھائی ایمل خان نے بھی 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 7 فروری کو ایبٹ آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ہری پور سینٹرل جیل میں مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 58 گرفتار ملزمان میں سے ایک ملزم عمران کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے 5 ملزمان میں سے فضل رازق، مجیب اللہ، اشفاق خان کو عمر قید جب کہ ملزمان مدثر بشیر اور بلال بخش کو عمر قید کے ساتھ ساتھ ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی بھی سزائیں سنائیں۔

دوسری جانب عدالت نے اپنے فیصلے میں 25 دیگر ملزمان کو ہنگامہ آرائی، تشدد، مذہبی منافرت پھیلانے اور مجرمانہ اقدام کے لیے ہونے والے اجتماع کا حصہ بننے پر 4، 4 سال قید جب کہ 26 افراد کو عدم ثبوت پر بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

مشال خان کون تھا؟

عبدالولی خان یونیورسٹی کا 23 سالہ نوجوان مشال خان صوابی کا رہائشی اور جرنلزم کا طالب علم تھا، جسے گزشتہ برس 13 اپریل کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر فائرنگ اور تشدد کے ذریعے ابدی نیند سلادیا تھا۔

واقعے کے دن ہی اس قتل کا مقدمہ درج کیا گیا اور یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کردیا گیا تھا، بعدازاں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور جے آئی ٹی بھی تشکیل دی گئی۔

جے آئی ٹی نے مشال کو بے قصور قرار دیا جب کہ ویڈیو کی مدد سے مقدمے میں 61 ملزمان کو نامزد کیا گیا جن میں سے 58 کو گرفتار کیا گیا، ان افراد میں فائرنگ کا اعتراف کرنے والا ملزم عمران بھی شامل تھا جبکہ پی ٹی آئی کا تحصیل کونسلرعارف، طلباء تنظیم کا رہنما صابر مایار اور یونیورسٹی کا ایک ملازم اسد ضیاء تاحال مفرور ہیں۔

مشال کے قتل کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید تنقید کانشانہ بنایا گیا اور اس کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دینے کے لیے آواز بھی بلند ہوتی رہی۔


مزید خبریں :