02 مارچ ، 2018
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان انتظار احمد کے قتل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے تمام افراد کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں لیکن کیس کی گھتی سلجھنے کےبجائے مزید الجھتی جارہی ہے۔
پولیس نے جو بیانات ریکارڈ کیے ہیں وہ سب منظر عام پر بھی آگئے لیکن فائرنگ کرنے والے گرفتار اہلکاروں کے بیانات کاکچھ پتہ نہیں چل سکا ہے اور نا ہی پولیس کے عبوری چالان میں اس کا ذکر ہے کہ گرفتار افراد نے فائرنگ کرنے کی کیا وجہ بتائی ہے۔
پولیس نے اپنے چالان میں سابق ایس ایس پی اے سی ایل سی مقدس حیدر اور واقعے کے وقت انتظار کے ساتھ گاڑی میں موجود لڑکی مدیحہ کیانی سمیت دیگر افراد کو کلین چٹ دے دی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قتل ذاتی دشمنی کی بنیاد پر نہيں ہوا لیکن اس سوال کا جواب اب تک نہيں مل سکا کہ انتظار کو قتل کیوں کیاگيا ۔
انتظار قتل کیس میں پہلے جے آئی ٹی بنی تو اس پر دباؤ کا الزام عائد ہوا اور دوسری جے آئی ٹی میں کام تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔
انتظار احمد کے قتل میں پہلے مدیحہ کیانی کا نام آیا اور پھر ماہ رخ کانام بھی آگیا ۔ انتظار کے والد نے پہلے مقدس حیدر کو تفتیش میں لینے کا مطالبہ کیا ، پھر ماہ رخ اور انسپکٹر عامر حمید کو زیر تفتیش لانے کا مطالبہ کیا ۔
جے آئی ٹی نے واقعےکی عینی شاہد مدیحہ کیانی ، انسپکٹر عامر حمید اور ان کے بھائی سہیل حمید سمیت انتظار کے والد کے بیانات ریکارڈ کرلیے ہیں لیکن اس بیان میں مدیحہ کیانی اپنی اس بات سے پھر گئی ہیں جو انہوں نے سوشل میڈيا پر جاری کیا تھا ۔
انتظار احمد قتل کیس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس اور جے آئي ٹی سب کے بیانات لے کر منظر عام پر بھی لارہی ہے لیکن فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے بیانات ابھی تک سامنے نہیں لائے گئے ہیں جس نے مزید سوالات کو جنم دینا شروع کر دیاہے۔