04 مارچ ، 2018
اسلام آباد: سینیٹ کی 52 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 15 امیدوار کامیاب ہوگئے جبکہ پیپلز پارٹی نے مجموعی طور پر 12 اور تحریک انصاف نے 6 نشستیں حاصل کیں۔
سینیٹ کی 52 نشستوں کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ ہوئی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے پہلی مرتبہ سینیٹ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لیا۔
سینیٹ کی 33 جنرل، علماء/ ٹیکنوکریٹس کی 9 ، خواتین کی 8 اور اقلیت کی 2 نشستوں کے لیے 131 امیدوار میدان میں تھے۔
سینیٹ انتخابات 2018 کے بعد اب سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی 33 نشستیں ہوگئی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی نشستیں کم ہوکر 20 نشستیں رہ گئیں۔
سینیٹ میں آزاد ارکان کی تعداد 17، پاکستان تحریک انصاف کی 12، ایم کیو ایم کی 5، نیشنل پارٹی کے 5، جے یوآئی ف کی 4، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی 3، جماعت اسلامی کی نشستیں بڑھ کر 2ہوگئیں۔
اس کے علاوہ سینیٹ میں اے این پی کی ایک نشست رہ گئی ہے جبکہ بی این پی ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کی بھی ایک ایک نشست ہے۔
غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 15 امیدوار کامیاب ہوئے۔
مجموعی طور پر 12 آزاد امیدوار، پاکستان پیپلز پارٹی کے 12، پاکستان تحریک انصاف کے 6، جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل پارٹی کے دو دو جبکہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی کا ایک ایک امیدوار کامیاب ہوا۔
پنجاب کی 12 نشستوں میں سے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 11 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک نشست پاکستان تحریک انصاف کے نام رہی۔
سندھ کی 12 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 10 ، مسلم لیگ فنکشنل اور ایم کیو ایم پاکستان نے 1،1 سینیٹ نشست حاصل کی۔
خیبر پختونخوا کی 11 نشستوں میں سے پاکستان تحریک انصاف کے 5، ن لیگ کے حمایت یافتہ 2 ، پیپلز پارٹی 2 اور جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے 1،1 امیدوار کامیاب ہوئے۔
بلوچستان کی 11 نشستوں میں سے 8 آزاد امیدوار، نیشنل پارٹی کے 2 اور جمعیت علمائے اسلام کا 1 امیدوار کامیاب ہوا۔
اسلام آباد کی سینیٹ کی 2 نشستیں ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدواروں اور فاٹا کی 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے نام رہیں۔
سینیٹ کی 33 جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدواروں میں بلوچستان سے احمد خان (آزاد)، انوار الحق کاکڑ (آزاد)، کاؤدا بابر (آزاد)، محمد صادق سنجرانی (آزاد)، سردار شفیق ترین (آزاد)، مولوی فیض محمد (جے یو آئی ف) اور محمد اکرم (نیشنل پارٹی) سینیٹر منتخب ہوئے۔
جنرل نشست پر فاٹا سے ہدایت اللہ (آزاد)، ہلال الرحمان (آزاد)، مرزا محمد آفریدی (آزاد)، شمیم آفریدی (آزاد) سینیٹر منتخب ہوئے۔
اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ محمد اسد علی خان جونیجو جنرل نشست پر منتخب ہوئے۔
خیبر پختونخوا میں جنرل نشست پر مشتاق احمد (جماعت اسلامی)، محمد طلحہ محمود (جے یو آئی ف)، سید محمد صابر شاہ (ن لیگ کے حمایت یافتہ)، فیصل جاوید (تحریک انصاف)، بہرہ مند (پیپلز پارٹی)، فدا محمد (تحریک انصاف)، محمد ایوب (تحریک انصاف) سینیٹر منتخب ہوئے۔
پنجاب اسمبلی سے جنرل نشست پر ن لیگ کے حمایت یافتہ آصف سعید کرمانی، ہارون اختر خان، مصدق مسعود ملک، رانا مقبول احمد، شاہین خالد بٹ، زبیر گل سینیٹر منتخب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے چوہدری محمد سرور بھی جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے۔
سندھ اسمبلی سے جنرل نشست پر محمد فروغ نسیم (ایم کیو ایم پاکستان)، سید مظفر حسین شاہ (مسلم لیگ فنکشنل) جبکہ پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی، انعام الدین شوقین، مولا بخش چانڈیو، مصطفیٰ نواز کھوکر اور سید محمد علی شاہ جاموٹ سینیٹر منتخب ہوئے۔
ٹیکنوکریٹس کی نشست پر کامیاب ہونے والے امیدواروں میں مشاہد حسین سید (ن لیگ کے حمایت یافتہ، اسلام آباد)، دلاور خان (ن لیگ کے حمایت یافتہ، خیبر پختونخوا)، محمد اعظم خان سواتی (تحریک انصاف، خیبر پختونخوا)، حافظ عبدالکریم (ن لیگ کے حمایت یافتہ، پنجاب)، اسحاق ڈار (ن لیگ کے حمایت یافتہ، پنجاب) رخسانہ زبیری (پیپلز پارٹی، سندھ)، سنکدر علی مندھڑو (پیپلز پارٹی، سندھ)، نصیب اللہ بازائی (آزاد، بلوچستان)، محمد طاہر بزنجو (نیشنل پارٹی، بلوچستان) شامل ہیں۔
سینیٹ میں خواتین کی نشست پر کامیاب ہونے والی امیدواروں میں ثناء جمالی (آزاد، بلوچستان)، عابدہ محمد عظیم (آزاد، بلوچستان)، روبینہ خالد (پیپلز پارٹی، خیبر پختونخوا)، مہر تاج روگھانی (تحریک انصاف، خیبر پختونخوا)، نزہت صادق (ن لیگ کی حمایت یافتہ، پنجاب)، سعدیہ خاقان عباسی (ن لیگ کی حمایت یافتہ، پنجاب)، کرشنا کوہلی (پیپلز پارٹی، سندھ)، قرۃ العین مری (پیپلز پارٹی، سندھ) شامل ہیں۔
سینیٹ میں اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں پر پنجاب سے ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار کامران مائیکل جبکہ سندھ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار انور لعل دین سینیٹر منتخب ہوئے۔
سینیٹ معرکے کے لیے پولنگ کا عمل صبح 9 بجے شروع ہوا جو بلاتعطل شام 4 بجے تک جاری رہا۔
وقت ختم ہونے کے بعد جو لوگ پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود تھے صرف ان ہی کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت تھی۔
بلوچستان اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد 65 ہے لیکن گزشتہ روز منظور کاکڑ کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا جس کے باعث تمام 64 اراکین نے ووٹ ڈالے اور اس طرح صوبائی اسمبلی میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 100 فیصد رہا۔
سندھ اسمبلی کے 161 سے نے ووٹ کاسٹ کیے جن میں سے پیپلزپارٹی کے85 ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 7 ارکان نے بھی ووٹ ڈالے۔
فاٹا کے 11 میں سے8 ارکان نےووٹ کاسٹ کیا، وزیرمملکت غالب خان وزیر، شہاب الدین اور پی ٹی آئی کے قیصرجمال نےووٹ نہیں ڈالا۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسلام آباد میں موجودگی کے باوجود سینیٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جب کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز بیماری کے باعث بیرون ملک موجود ہیں اس وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکیں۔
الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات میں پولنگ کی نگرانی کے لیے نمائندے مقرر کیے تھے جن میں الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران اور سیکریٹری نگرانی کیلئے موجود رہے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب خیبرپختونخوا اسمبلی، ممبر الیکشن کمیشن، عبدالغفار سومرو بلوچستان اسمبلی، شکیل بلوچ سندھ اسمبلی اور الطاف ابراہیم قریشی پنجاب اسمبلی میں نگرانی کے لیے موجود ہیں۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ کسی امیدوار نے کوئی شکایت نہیں کی، سب امیدواروں نے اچھے انتظامات پر اطمینان کا اظہارکیا۔
ہارس ٹریڈنگ کی شکایت کے سوال پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انہیں کسی نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق کے مطابق اراکین کے پولنگ اسٹیشن میں موبائل فون لانے پر مکمل پابندی تھی۔
ضابطہ اخلاق کے مطابق بیلٹ پیپر کو خراب کرنے یا اسے پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جانے پر مکمل پابندی تھی اور جعلی بیلٹ پیپر استعمال کرنے پر کارروائی کا عندیہ دیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ اور 6 ماہ سے 2 سال تک قید کی سزا رکھی گئی تھی جب کہ الیکشن کمیشن مجاز تھا کہ جرمانہ اور قید کی سزا ایک ساتھ سنا سکے۔
سینیٹ انتخابات کے موقع پر ماحول پر امن رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر وزارت داخلہ نے اسمبلیوں کی سیکیورٹی رینجرز کے سپرد کر رکھی تھی اور رینجرز کی بھاری نفری اسمبلیوں پر موجود رہی۔
پشاور میں پولنگ کے موقع پر خیبرپختونخوا اسمبلی اور قریبی عمارتوں کو ریڈ زور قرار دیا گیا، اسمبلی اور اطراف میں 400 سے زائد پولیس اہلکار بھی سیکیورٹی کے لیے تعینات تھے۔
یاد رہے کہ سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔