09 مارچ ، 2018
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں 19 سالہ نوجوان انتظار قتل کیس کے تفتیشی افسر نے عبوری چالان انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ انتظار احمد کو پولیس اہلکاروں نے قتل کیا، قتل کرنے والے اہلکار اُس وقت سادہ لباس میں تھے۔
تفتیشی افسر کی جانب سے پیش کیے جانے والے چالان میں سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ چالان پیش ہونے کے بعد انتظار قتل کیس اہم رخ اختیار کر گیا ہے کیوں کہ پولیس نے اسے دہشت گردی کا مقدمہ قرار دے دیا ہے۔
چالان میں کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے انتظار کا قتل کیا،واقعے میں ملوث اہلکار سادہ لباس میں تھے۔
چالان میں واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی ذکر کیا گیا ہے جبکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 9 پولیس اہلکار گرفتار اور ایک انسپکٹر ضمانت پر رہا ہے۔
گرفتار ملزمان میں انسپکٹر طارق محمود، اظہر احسان، غلام عباس سمیت دیگر شامل ہیں۔
14 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد ہلاک ہوگیا تھا، نوجوان کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی تھی۔
مقتول انتظار کے والدین کی پریس کانفرنس پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور واقعے کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تھا۔
پولیس نے ابتدائی طور پر بیان دیا تھا کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں نے گاڑی مشکوک سمجھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئ جس سے نوجوان ہلاک ہوگیا۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق جائے وقوعہ سے گولیوں کے 16 خول ملے تھے جب کہ مقتول کی گاڑی میں ایک لڑکی موجود تھی جو بعد میں رکشے میں چلی گئی، اس لڑکی کی شناخت بعد میں مدیحہ کیانی کے نام سے ہوئی۔
مدیحہ کیانی نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ اس کی ایک ہفتہ پہلے ہی انتظار سے دوستی ہوئی تھی اور اس نے فائرنگ کرنے والوں کو نہیں دیکھا۔
دوسری جانب مقتول کے والد کی جانب سے دشمنی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا واقعے سے 2 روز قبل دو لڑکوں فہد اور حیدر سے جھگڑا ہوا تھا، ایک لڑکا پولیس افسر اور دوسرا وکیل کا بیٹا ہے۔