19 مارچ ، 2018
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ہوئی جس میں دھرنے سے متعلق آئی ایس آئی کی رپورٹ پیش کی گئی جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
آئی ایس آئی کی جانب سے 46 صفحات پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ تحریک لبیک نہ ہی کالعدم جماعت ہے اور نہ ہی واچ لسٹ پر ہے، مولوی خادم رضوی بظاہر کرپٹ آدمی ہیں، ان کی شخصی شہرت غیرتسلی بخش ہے، خادم رضوی کا رہن سہن بظاہر اس کی آمدنی سے مطابقت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر اشرف جلالی مذہبی انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث، رپورٹ
رپورٹ میں تحریک لبیک کے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کو مطلبی اور موقع پرست قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہےکہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی مذہبی انتہا پسند کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔
آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق خادم رضوی نے مارچ سے قبل ایک کروڑ روپے سے زائد رقم اکٹھی کی، لوگوں سے کہا گیا مارچ میں شریک ہوں یا پھر 300 روپے فی کس جمع کرائیں، گروپ کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس نے بھی مارچ کے لیے امداد جمع کی۔
شیخ رشید، اعجاز الحق اور پی ٹی آئی علماونگ نے مظاہرین کو مدد دی: رپورٹ
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل کے مالک نے مظاہرین کو کھانا فراہم کیا۔
رپورٹ میں سیاستدانوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شیخ رشید، اعجاز الحق اور پی ٹی آئی علماونگ مدد فراہم کرتے رہے، پیپلزپارٹی کے شیخ حمید اور ایک نجی ٹی وی تجزیہ کار نے بھی مدد کی جب کہ 6 وکلاء اور 3 ٹریڈ یونینز کے رہنماؤں نے بھی دھرنا مظاہرین کی مدد کی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہےکہ پنجاب حکومت نے مظاہرین کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہ کی، پولیس مظاہرین کی خوراک بند کرنے کے نہ قابل تھی نہ ہی کرنا چاہتی تھی، حکومت نے ہائیکورٹ کے حکم پر 25 نومبر کو آپریشن کیا جو بری طرح ناکام ہوا، جڑواں شہروں کی پولیس میں رابطوں کا فقدان آپریشن میں ناکامی کی وجہ بنا۔
آئی ایس آئی نمائندوں نے حکومت اور مظاہرین میں رابطے کا کردارادا کیا: رپورٹ
رپورٹ میں کہا گیاہےکہ وفاقی حکومت نے آزادانہ طور پر دھرنامنتظمین سے رابطہ نہیں کیا، آئی ایس آئی نمائندوں نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان رابطے کا کردارادا کیا۔
آئی ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں دیگر ایجنسیوں کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار دی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس کی اسپیشل برانچ کی طرف سے دھرنے کی محدود کوریج نظر آئی، آئی بی کی طرف سے کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی، آئی ایس آئی کو اتھارٹی کے ساتھ مکمل کردار ادا کرنے کا کہا گیا۔
وزیراعظم آفس میں ہونے والی میٹنگ کے منٹس بھی رپورٹ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دھرنے کے شرکاء نے سی ڈی اے کے پاور پول سے بجلی چوری کی، سی ڈی اے کا ایک اسٹینڈ بائی جنریٹر بھی زیر استعمال لایا گیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہےکہ سوشل میڈیا پر سرگرمیاں مانیٹر کرنے کااختیار ایف آئی اے کے پاس ہے، کچھ ریاست مخالف سرگرمیاں آئی ایس آئی نے مانیٹر کی ہیں، سرگرمیوں کی تفصیلات مطالبے پرایف آئی اے کو فراہم کردی جائیں گی۔
سپریم کورٹ میں دھرنا کیس کی سماعت کے آئی ایس آئی کی رپورٹ پر دوران جسٹس قاضی نے کہا کہ گزشتہ سماعت آئی ایس آئی سے پوچھا تھا خادم رضوی کون ہے اور پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ خفیہ اداروں کو یہ نہیں پتا کہ خادم رضوی کا ذریعہ معاش کیا ہے، خادم رضوی بزنس مین ہے؟ خطیب ہے؟ کوئی دوسرا کام کرتا ہے؟ کیا اس کا کوئی بینک اکاونٹ ہے؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئی ایس آئی رپورٹ میں لکھا ہے کہ خادم رضوی کرپٹ آدمی ہے، اس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اگریہ شخص کرپٹ ہےتوآپ کا فرض نہیں تھا کہ تمام چیزیں حکام کے علم میں لائیں۔
آئی ایس آئی کی رپورٹ دیکھ کر خوف آنے لگا ہے: جسٹس قاضی فائز
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کیا وجوہات بتائی گئی ہیں کہ کن بنیادوں پر وہ کرپٹ ہے؟ ایسا تو کچھ نہیں لکھا ہے رپورٹ میں، آپ آئی ایس آئی کی رپورٹ سے مطمئن کیسے ہیں؟ یہ رپورٹ دیکھ کر مجھے تو خوف آنے لگا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل، آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ آپ ڈپٹی اٹارنی جنرل ہیں،جو تنخواہ ملتی ہے اسی سے گزارا کرتے ہیں؟ آپ کی تنخواہ ایک لاکھ اور خرچہ 25 لاکھ ہو تو کیا آپ سے سوال نہیں ہوں گے؟ کیا یہ کوئی مشکل سوالات ہیں جو پوچھے نہیں جاسکتے، آپ نے رپورٹ میں کیوں نہیں لکھا کہ یہ دوسروں کے پیسوں پر پل رہے ہیں۔
اربوں کی جائیداد تباہ کردی، کسی کونہیں معلوم یہ شخص کرتا کیا ہے:
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ برہم
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اربوں کی جائیداد تباہ کردی، کسی کونہیں معلوم یہ شخص کرتا کیا ہے، پاکستان کو بنانا بہت مشکل ہے، تباہ کرنا تو بہت آسان ہے، اگرکوئی ایسی بات ہے، خفیہ معاملہ ہے تو بتائیں ان کیمرہ سن لیتے ہیں۔
دوران سماعت منسٹری آف ڈیفنس کے نمائندےنے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ دھرنے سے پہلے خادم رضوی نے عطیات اکٹھے کیے۔
اس موقع پر انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈی جی انورعلی نے فائل میں دستاویزات پیش کیں۔
اس پر عدالت نے کہا کہ یہ تو اخباری تراشے ہیں، کوئی خفیہ دستاویز نہیں، جو بھی پیش کرنا ہے اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے پیش کریں۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل امریکا میں ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا کوریگولیٹ کرنے کے حوالے سے کیا اقدامات کیے؟ بتایا نہیں گیا۔
عدالت نے پیمرا کو جواب داخل کرنے کیلئے 10 دن کا وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتہ کیلئے ملتوی کردی۔