05 اپریل ، 2018
کراچی: رواں برس 20 جنوری کو شارع فیصل پر جعلی مقابلے میں نوجوان مقصود کے قتل کے مقدمے میں نامزد 4 پولیس اہلکار تاحال عہدوں پر برقرار ہیں اور ان اہلکاروں کےخلاف اب تک کوئی محکمانہ کارروائی نہیں کی گئی۔
نوجوان مقصود کے قتل کا مقدمہ اے ایس آئی طارق خان،کانسٹیبل اکبر خان، عبدالوحید اور شوکت علی کے خلاف درج ہے۔
تاہم پولیس ریکارڈ کے مطابق ان اہلکاروں کو نہ تو معطل کیا گیا، نہ انہیں شوکاز نوٹس جاری کیے گئے۔
دوسری جانب شارع فیصل تھانے کے ایس ایچ او علی حسن کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
سی سی پی او کراچی ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر کیس کی پیش رفت سے لاعلم ہیں، جن کا کہنا ہے کہ جن دنوں قتل کا واقعہ ہوا وہ چھٹی پر تھے۔
ایس ایچ او شارع فیصل کے مطابق چاروں ملزم پولیس اہلکار چند دن سے ڈیوٹی سےغیر حاضر ہیں۔
مقصود قتل کیس— کب کیا ہوا؟
یاد رہے کہ رواں برس 20 جنوری کو پیش آنے والے واقعے میں پولیس کی فائرنگ سے مقصود نامی نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔
پولیس نے ابتدائی بیان میں بتایا تھا کہ شارع فیصل پر گشت پر موجود اہلکاروں نے ایک مشتبہ رکشے کو روکا تو ملزمان نے فائرنگ کردی جس کے بعد پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں چار ملزمان زخمی ہوگئے۔
پولیس کے ابتدائی بیان میں بتایا گیا تھا کہ زخمی ملزمان کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے ایک ملزم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا جس کی شناخت مقصود کے نام سے ہوئی جب کہ دیگر زخمی ملزمان میں رؤف، بابر اور علی شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان شارع فیصل پر شہریوں سےلوٹ مار کرتے تھے اور ایئرپورٹ سے واپس آنے والوں کو ہدف بناتے تھے۔
بعدازاں پولیس نے اپنا بیان تبدیل کرلیا اور بتایا کہ مقابلے کے دوران فائرنگ سے ایک شہری جاں بحق اور ایک زخمی ہوا ہے جبکہ 2 ملزمان گرفتار کیے گئے جن میں علی اور بابر شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق جاں بحق شخص مقصود رکشے میں سوار تھا اور رکشا ڈرائیور عبدالرؤف فائرنگ سے زخمی ہوا تھا۔
تاہم گذشتہ ماہ سامنے آنے والی ایک سی سی ٹی وی ویڈیو نے 20جنوری کو پولیس کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں نوجوان مقصود کے قتل کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔
سی سی ٹی وی ویڈیو کے مطابق مقصود کو اے ایس آئی طارق نے قریب سے گولیاں ماریں، جس کے بعد اے ایس آئی طارق نے رکشے سے اترنے والے 2 دیگر افراد کو بھی گولیاں ماریں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعے کے حوالے سے پولیس کے نچلے افسران اعلیٰ حکام کو غلط معلومات فراہم کرتے رہے اور 17 فروری تک اعلیٰ افسران کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ واقعے کی کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے۔
17 فروری کو نجی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب میں ڈی آئی جی آزاد خان نے آن ریکارڈ یہی بتایا تھا کہ اس واقعے کی سرے سے کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج ہے ہی نہیں۔
تاہم جب اس واقعے کی تحقیقات ڈی آئی جی ویسٹ عامر فاروقی کو سونپی گئیں اور انہوں نے جامع تحقیقات کیں تو یہ بات معلوم ہوئی کہ اس واقعے کی ایک سی سی ٹی وی ویڈیو موجود ہے۔
پولیس کی جانب سے گذشتہ ماہ خاموشی سے سی سی ٹی وی ویڈیو کی تفصیلات پر مبنی چالان عدالت میں جمع کرایا جاچکا ہے، لیکن اب تک اس حوالے سے مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔