21 اپریل ، 2018
کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو 2 مئی تک عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
پولیس نے معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو 30 روز کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا جہاں ملزم کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت لایا گیا۔
پولیس کی جانب سے مجموعی طور پر کیس کے 12 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
کیس کی کارروائی کے آغاز پر تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سے ابھی تفتیش مکمل نہیں ہوئی، تفتیش کے لیےجےآئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جے آئی ٹی کی سفارشات کےبعد ہی حتمی رپورٹ پیش کی جائے گی۔
ڈاکٹر رضوان نے راؤ انور کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کرتے ہوئے حتمی چالان پیش کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت طلب کی۔
عدالت نے تفتیشی افسرا کی استدعا پر ملزم راؤ انوار اور شکیل کو 2 مئی تک عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا جب کہ ڈی ایس پی قمر احمد سمیت دیگر 10 ملزمان کےعدالت ریمانڈ میں توسیع کردی۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت بھی 2 مئی تک ملتوی کردی۔
احاطہ عدالت میں صحافیوں کی جانب سے راؤ انوار سے سوال کیا گیا کہ کیا نقیب اللہ دہشت گرد تھا؟ اس پر راؤ انوار نے جواب دیا پہلے حتمی چالان جمع ہونے دیں، بعد میں بتاؤں گا۔
علاوہ ازیں تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان نےصحافیوں کے سوالات پر کہا کہ ابھی جے آئی ٹی کی حتمی فائنڈنگز نہیں آئیں اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتے، جب جےآئی ٹی اپنی فائنڈنگز مکمل کرے گی تب ہی بتایا جاسکے گا کہ کیس میں کسے ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی نے بھی راؤ انوار پر 4 افراد کے قتل کا الزام برقرار رکھا ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ راؤ انوار نے جعلی مقابلے میں نقیب محسود اور دیگر کو قتل کیا۔
رپورٹ میں راؤ انور سمیت 24 اہلکاروں پر دہشت گردی اور غیر قانونی اسلحہ کے الزامات بھی برقرار رکھے ہیں جب کہ گواہوں نے نئے بیانات میں بھی پولیس پر دہشت گردی کے الزامات برقرار رکھے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ پولیس ٹیم کے 3 گرفتار اہلکاروں نےبھی بیانات میں راؤ انوار پر الزامات کا اعادہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سینٹرل جیل میں قید بعض ملزمان کے بیانات کی بھی دوبارہ تصدیق کی گئی جب کہ جے آئی ٹی کے سامنے راؤ انوار کی گفتگو، تحریری بیان اور سوالنامہ بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہا ہےکہ راؤ انوار، ملزمان کے کال ڈیٹا ریکارڈ کی چھان بین نے مزید شواہد فراہم کردیئے۔
واضح رہے کہ کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 22 مارچ کو راؤ انوار کو 30 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےکیا تھا۔
نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 10 ملزمان گرفتار ہیں۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
رواں برس 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دے کر راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
گذشتہ ماہ 21 مارچ کو مقدمے میں نامزد ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے سپریم کورٹ میں پیش ہوجانے اور گرفتاری کے بعد عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کو کیس کی تفتیش جلد مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے نقیب قتل ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا تھا۔
بعدازاں اگلے روز (22 مارچ) راؤ انوار کو 30 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔