26 اپریل ، 2018
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل تین رکنی لارجر بینچ نے پی ٹی آئی رہنما کی درخواست پر سماعت کے بعد 10 اپریل کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ آصف کی نااہلی سے متعلق متفقہ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
35 صفحات پر مشتمل فیصلے کے مطابق خواجہ آصف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا گیا ہے، جس کے بعد ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت بھی ختم ہوگئی۔
فیصلے کے مطابق خواجہ آصف کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی وزارت محنت کی طرف سے لیبر کیٹیگری کا شناختی کارڈ جاری ہوا اور ملازمت کی وجہ سے ہی انہیں اقامہ بھی جاری ہوا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق 2013 کے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت یہ ملازمت ہی خواجہ آصف کا بنیادی پیشہ تھا۔
فیصلے کے مطابق کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت خواجہ آصف کا ملازمت کا معاہدہ موجود تھا، جس کی تصدیق یو اے ای کی حکومت نے بھی کی اور معاہدے کے تحت خواجہ آصف کمپنی معاملات کو خفیہ رکھنے کے پابند تھے۔
تحریری فیصلے کے مطابق خواجہ آصف کے معاہدے کے تحت 1 سال میں مسلسل 7 روز غیرحاضری پر خواجہ آصف کی ملازمت ختم ہوسکتی تھی جبکہ معاہدے کے تحت انہیں ہر ماہ تنخواہ ملتی رہی اور خواجہ آصف نے اسے تسلیم بھی کیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ملازمت ظاہر کرنے سے خواجہ آصف کے لیے مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ اٹھایا جاسکتا تھا، یہی وجہ ہے کہ کاغذات نامزدگی کے کالم 8 میں انہوں نے لفظ 'کاروبار' لکھا تھا۔
فیصلے میں خواجہ آصف کی ملازمت سے متعلق 3 کنٹریکٹ بھی منسلک کیے گئے ہیں۔
عدالتی حکم نامے کی کاپی موصول ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے خواجہ آصف کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق خواجہ آصف کی نا اہلی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر جاری کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق خواجہ آصف اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے اور قومی اسمبلی کی نشست این اے 110 خالی قرار دے دی گئی ہے۔
خواجہ آصف کو 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قراردیا گیا ہے۔
عدالت کا فیصلے کی مصدقہ کاپی الیکشن کمیشن کو بھجوانےکا حکم۔
فیصلےمیں خواجہ آصف کی ملازمت سے متعلق 3 کنٹریکٹ بھی منسلک۔
فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کےلارجر بینچ کےسربراہ جسٹس اطہرمن اللہ نےسنایا۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی لارجر بنچ کا حصہ تھے۔
واضح رہے کہ خواجہ آصف 2013 کے عام انتخابات میں این اے 110 سیالکوٹ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وہ اپنی نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلج کریں گے، امید ہے عدالت عظمیٰ سے انہیں انصاف ملے گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ان کی نااہلی اگر برقرار بھی رہتی ہے تو سابق وزیراعظم نواز شریف کا کوئی دوسرا کارکن سیالکوٹ سے الیکشن لڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جب انہیں گرفتار کیا گیا اس وقت بھی ان کے کاروبار کا حساب لیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی گلوبل انکم پر ٹیکس دیتے ہیں، انہوں نے کوئی چیز نہیں چھپائی اور تمام اکاؤئنٹس ظاہر کرچکے ہیں، کوئی ثابت کردے کچھ چھپایا ہے تو وہ خود اپنے اثاثوں سے دستبردار ہوجائیں گے۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ آنے والے الیکشن میں نوازشریف کا پرچم لے کرہم ہی جیتیں گے۔
خواجہ آصف 2013 کے انتخابات لڑنےکے اہل نہیں تھے۔
عدالت 3 لاکھ 42 ہزار125 ووٹرز کے منتخب نمائندےکونااہل قرار دینے پر دکھی ہے۔
کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت خواجہ آصف کاملازمت کامعاہدہ موجود تھا۔
خواجہ آصف کے پہلے معاہدےکی تصدیق یو اے ای کی حکومت نے بھی کی۔
معاہدے کے تحت خواجہ آصف کمپنی معاملات کو خفیہ رکھنے کے پابندتھے۔
خواجہ آصف کو یو اےای کی وزارت محنت کی طرف سے لیبرکیٹیگری کا شناختی کارڈ بھی جاری ہوا۔
ملازمت کی وجہ سے ہی خواجہ آصف کواقامہ بھی جاری ہوا۔
کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت یہ ملازمت ہی خواجہ آصف کا بنیادی پیشہ تھا۔
معاہدےکے تحت ایک سال میں مسلسل7روز غیر حاضری پر خواجہ آصف کی ملازمت ختم ہوسکتی تھی۔
معاہدے کے تحت خواجہ آصف کو ہرماہ تنخواہ ملتی رہی، خواجہ آصف نے تسلیم بھی کیا۔
ملازمت ظاہر کرنے سے خواجہ آصف کے لیے مفادات کے ٹکراؤ کامعاملہ اٹھایا جاسکتا تھا۔
کاغذات نامزدگی کے کالم 8 میں خواجہ آصف نے لفظ "کاروبار" لکھا تھا۔
خواجہ آصف نااہلی کیس
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار نے اقامہ کی بنیاد پر وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نااہلی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست گزار کے مطابق خواجہ آصف بیرون ملک ملازمت کرتے رہے اور انہوں نے اقامہ رکھا۔
دوسری جانب خواجہ آصف کے وکیل نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دلائل دیئے تھے کہ ان کے موکل کی جانب سے آمدن اور اثاثوں کی تفصیل نہیں چھپائی گئی۔
انہوں نے انٹرنیشنل مکینکل اینڈ الیکٹریکل کمپنی کا ایک خط بھی پیش کیا جس کے مطابق خواجہ آصف کمپنی کے کل وقتی ملازم نہیں بلکہ لیگل ایڈوائزر ہیں اور کمپنی کا نمائندہ ان حقائق کی تصدیق کے لیے پاکستان جا کر عدالت میں پیش ہونے کو تیار ہے۔
عدالت عالیہ نے تمام دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد 10 اپریل کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔