29 اپریل ، 2018
لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے داماد خالد رحمان کے ذریعے سفارش کرانے والے پولیس افسر سرزنش کی۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان نے ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر کے بچوں کے حوالگی کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر کی جانب سے اپنے داماد کے ذریعے سفارش کرانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کس نے آپ کو مشورہ دیا کہ میرے فیملی ممبر سے سفارش کرائی جاسکتی ہے، آپ کی جرأت کیسے ہوئی میرے داماد سے مجھے سفارش کرانے کی۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیسے سوچ لیا کہ چیف جسٹس پاکستان کو کوئی سفارش کرے گا، میں جہاد کر رہا ہوں اور آپ مجھے سفارش کرا رہے ہیں۔
اس موقع پر ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر نے کہا کہ میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ذرائع بتائیں جس نے آپ کو مجھے سفارش کرانے کا مشورہ دیا۔
عدالت کے طلب کرنے پر چیف جسٹس پاکستان کے داماد خالد رحمان پیش ہوئے جس پر بند کمرہ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کی۔
چیف جسٹس نے اپنے داماد سے استفسار کیا کہ 'بتائیں آپ کو کس نے سفارش کا کہا، آپ میرے بیٹے گھر پر ہوں گے یہاں چیف جسٹس پاکستان کے سامنے موجود ہیں۔
داماد خالد رحمان نے بتایا کہ مجھے ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر نے سفارش کی تھی جن کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹوں اور سابق اہلیہ کا نام ای سی ایل میں رہنا چاہیے۔
چیف جسٹس سے کہا کہ میں چیف جسٹس پاکستان سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اس کیس کی مزیدسماعت چیمبرمیں ہوگی۔
یاد رہے کہ ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر کی سابق اہلیہ نے اپنا اور بچوں کا نام ای سی ایل میں ڈلوانے پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔
خاتون کے ساتھ فراڈ کا کیس
چیف جسٹس پاکستان نے خاتون کے ساتھ ڈیڑھ کروڑ روپے کے فراڈ کے کیس کی سماعت کے دوران ملزم منگیتر کو کمرہ عدالت میں گرفتار کرا دیا۔
خاتون نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس کے سابق منگیتر نے فراڈ سے 50 لاکھ اور پراپرٹی ہتھیالی اور وہ رقم واپس کرنے کی بجائے دھمکیاں دے رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ بدمعاشی ہے کہ بچیوں کے ساتھ فراڈ کیا جائے، اسے گرفتار کراتے ہیں، آدھے گھنٹے میں سچ بتا دے گا۔
عدالت نے سی آئی اے اور ایف آئی اے کو 2 ہفتوں میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس نے 111 درخواستیں نمٹا دیں
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں مختلف شہروں سے آئے سائلین کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے مجموعی طور پر 111 درخواستیں نمٹائیں۔
چیف جسٹس نے متعدد درخواستوں پر متعلقہ حکام کو احکامات جاری کیے جب کہ عدالتی احکامات پر چیف سیکرٹری پنجاب کمرہ عدالت میں موجود رہے۔
چیف جسٹس نے خاندانی تنازعات سے متعلق درخواستیں چیمبر میں نمٹائیں اور سپریم کورٹ کے باہر سائلین کو شکایات سیل میں درخواستیں جمع کرانے کی ہدایت بھی کی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی درخواست مسترد
درخواستوں کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امتیاز کیفی نے چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی کہ آپ سے آج پہلی اور آخری مرتبہ کچھ مانگ رہا ہوں انکار نہ کیجیے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں کسی کو کیا دے سکتا ہوں بتائیں کیا مسئلہ ہے جس پر انہوں نے کہا کہ میں اوپن کورٹ میں نہیں بتا سکتا تحریری درخواست دیکھ لیں پلیز۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آپ رش میں گاڑی سے نہ اتریں، ہمیں آپ کی زندگی بہت عزیز ہے، چیف جسٹس نے درخواست دیکھی اور غصے میں آگئے اور کہا کہ مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں، آپ لوگ مجھے عوام سے دور کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے پتہ ہے جتنی آپ کو مجھ سے ہمدردی ہے، مجھے عوام روکیں گے میں گاڑی روک کر ان کے مسائل سنوں گا۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی درخواست مسترد کردی۔