19 مئی ، 2018
کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے دوران سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر ملزمان کو پیش کیا گیا، جہاں مقدمے میں نامزد ملزم ڈی ایس پی قمر احمد نے ضمانت کی درخواست دائر کردی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مقدمے کی سماعت بند کمرے میں کی۔
عدالت نے ڈی ایس پی قمر احمد کی درخواست ضمانت پر بحث کے لیے نوٹس جاری کردیئے، تاہم سرکاری وکلاء بیرو مل اور نواز کریم نے نوٹس وصول کرنے سے انکار کردیا۔
جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 'حیرت ہے سرکاری وکلاء نوٹس بھی وصول نہیں کررہے'۔
عدالت کا کہنا تھا کہ 'ہائیکورٹ کو لکھا تھا کہ کیس بھیج رہے ہیں تو عملہ اور سرکاری وکیل بھی بھیجیں'۔
سماعت کے بعد عدالت نےپیش کردہ سی ڈی کی کاپیاں کروا کر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت 28 مئی تک کے لیے ملتوی کردی۔
مفرور ملزمان کی گرفتاری سے متعلق رپورٹ پیش
دوسری جانب آج سماعت کے دوران پولیس نے مفرور ملزمان شعیب شوٹر، امان اللہ مروت اور دیگر کی عدم گرفتاری سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ تاحال مفرور ملزمان کاسراغ نہیں لگایا جاسکا، ملزمان کو گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
سماعت کے دوران راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق درخواست پر وکلاء نے دلائل دیئے۔
کمرہ عدالت میں راؤ انوار کی گپ شپ اور شکوے
پیشی کے دوران کمرہ عدالت میں راؤ انوار، شریک ملزم پولیس افسران سے گپ شپ کرتے نظر آئے۔
راؤ انوار نے ساتھی ملزم پولیس افسران سے سوال کیا، 'کیا چل رہا ہے؟'
جس پر ملزم پولیس افسران نے جواب دیا، 'بس آج کل پیشاں بھگت رہے ہیں'۔
دوسری جانب کمرہ عدالت کے اے سی کی کولنگ کم ہونے پر بھی راؤ انوار نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ 'لگتا ہے عدالت کا اے سی کام ہی نہیں کر رہا؟'
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں غیر رسمی گفتگو کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا کہ 'راؤ انوار صاحب سنا ہے کورٹ میں گرمی زیادہ ہے، لیکن آپ تو ہشاش بشاش لگ رہے ہیں'۔
جس پر سابق ایس ایس پی نے جواب دیا کہ 'نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے'۔
راؤ انوار کو اورنج جیکٹ سے استثنا
جیل حکام نے راؤ انوار کو اورنج رنگ کی جیکٹ سے استثنا دے دیا اور سابق ایس ایس پی کو آج ہتھکڑی لگائے بغیر سادہ کپڑوں میں عدالت لایا گیا۔
واضح رہے کہ زیر سماعت مقدمات کے ملزمان کو اورنج رنگ کی جیکٹ پہنانا ضروری ہے اور عدالتی ریمانڈ پر لائے گئے ہر ملزم کو اورنج رنگ کی جیکٹ پہنائی جاتی ہے۔
جبکہ کرپشن الزام میں گرفتار کئی اعلیٰ پولیس افسران کو بھی اورنج جیکٹ پہنا کر عدالت لایا جاتا ہے۔
تاہم ڈی ایس پی قمر احمد سمیت نقیب اللہ قتل کیس کے باقی تمام ملزمان کو اورنج رنگ کی جیکٹ پہنائی گئی۔
نقیب اللہ قتل کیس—کب کیا ہوا؟
رواں برس 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
بعدازاں 20 مارچ کو راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، جہاں چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر عدالت عظمیٰ کے احاطے سے راؤ انوار کو گرفتار کرکے کراچی پہنچا دیا گیا تھا، جہاں انسداد دہشت گردی عدالت میں ان کے خلاف نقیب قتل کیس کی سماعت جاری ہے۔