سندھ طاس معاہدہ: کشن گنگا ہائیڈرو ڈیم پر پاکستان کی شکایات ناکافی قرار

1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہد ہ طے پایا تھا—۔ فائل فوٹو

عالمی بینک نے سندھ طاس معاہدے اور کشن گنگا ہائیڈرو منصوبے پر پاکستان کی شکایات کو ناکافی قرار دے دیا۔ 

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدےکی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی قیادت میں 4 رکنی وفد نے عالمی بینک کے صدر اور دیگر حکام سے ملاقات کی اور پاکستان کے تحفظات سےآگاہ کیا۔

پاکستانی وفد نے معاہدے کے ضامن کی حیثیت سے عالمی بینک سے کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کی۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق بات چیت میں سندھ طاس معاہدے کے دائرے میں رہتے ہوئے مسئلے کے پُرامن حل کے مواقع پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا لیکن پاکستانی وفد سے ملاقات تنازع کے حل کیلئے کسی طریقہ کار پر اتفاق رائے کے بغیر ختم ہوگئی۔

عالمی بینک نے سندھ طاس معاہدے اور کشن گنگا ہائیڈرو منصوبے پر پاکستان کی شکایات کو ناکافی قرار دے دیا جب کہ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ تنازعات اور اختلافات پر عالمی بینک کا کردار انتہائی محدود ہے۔

عالمی بینک کے سربراہ اور حکام سے 3 روزہ بات چیت کے سلسلے کے دوران بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی، کشن گنگا، رتلے اور دیگر 12 منصوبوں کی تعمیر پر بات چیت کی جائے گی۔

ترجمان عالمی بینک کے مطابق سندھ طاس معاہدہ ایک انتہائی اہم بین الاقوامی سمجھوتہ ہے جو پانی کی مینجمنٹ سے متعلق موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو تعاون کا موثر فریم ورک فراہم کرتا ہے تاکہ ترقیاتی اہداف کا حصول اور انسانی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے کے خلاف بنائے گئے کشن گنگا پاور پلانٹ کا افتتاح کیا تھا، جس پر پاکستان نے اعتراض اٹھایا تھا۔

سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟

زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے پانی کی آمد پر ہوتا ہے۔ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے کافی اہم ہے۔

اس معاہدے کی ضرورت 1948 میں اُس وقت پیش آئی جب بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کردیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث عالمی برادری متحرک ہوئی اور 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔

اس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کاحق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہےجبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔

چوں کہ مغربی دریاؤں میں سے کئی کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا، اس لیے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی لیکن بھارت نے معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اور مقبوضہ علاقوں سے گزرنے والے دریاؤں میں یعنی سندھ، چناب اور جہلم پر 15 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے جبکہ مزید 45 سے 61 ڈیمز بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ ان دریاؤں پر آب پاشی کے 30 سے زائد منصوبے بھی مکمل کیے گئے ہیں۔حال ہی میں آنے والی خبروں کے مطابق اب بھارت 15 ارب ڈالر کی لاگت سے مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کرہا ہے جس میں 1856 میگاواٹ کا سوا لکوٹ پاور پروجیکٹ بھی شامل ہے۔ کشن گنگا، رتلے، میار، لوئر کلنائی، پاکال دل ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ اور وولر بیراج نیوی گیشن پروجیکٹ پر بھی کام کا آغاز کیا جارہا ہے جن کا مقصد بظاہر تو بجلی بنانا ہے لیکن اس کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا بتایا جاتا ہے۔

دوسری جانب بھارت پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے کئی بار سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے جبکہ دریاؤں کا رخ موڑنے کا اعلان بھی کرتا نظر آتا ہے۔

مزید خبریں :