خصوصی رپورٹس
17 مارچ ، 2017

سندھ طاس معاہدہ، بھارت پھر آپے سے باہر

سندھ طاس معاہدہ، بھارت پھر آپے سے باہر

بھارت کی جانب سے پاکستان کو دباؤ میں لانے کےلیے کئی بار سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی گئی اور دریاؤں کا رخ موڑنے کا بھی کہا گیا،مگر کیا وہ ایسا کرسکتا ہے اور کیا ایسا کرنا اتنا ہی آسان ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کر سکے؟ یہ جاننے کےلیے ہمیں اس معاہدے کے تحت آنے والے دریاؤں کے ماخذ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

یاد رہے کہ 1960ء کے سندھ طاس منصوبے کے تحت پاکستان کو 3مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور راوی جبکہ بیاس اور ستلج کو بھارتی کنٹرول میں دیا گیا ہے۔

دریائے راوی کا منبع بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع چمبہ کے پہاڑی سلسلے ’آر ایف چولن‘ میں واقع ہے، اسی طرح دریائے بیاس بھی اسی ریاست کے علاقے بیاس کُنڈ سے نکلتا ہے اور بھارت کے سرحدی شہر فیروزپور پر دریائے ستلج میں جاملتا ہے اس طرح یہ پورا دریا بھارت میں بہتا ہے۔

دریائے ستلج کی بات کی جائے تو اس کا منبع چین کے علاقے تبت میں 322 کلو میٹر اندر ایک جھیل کے قریب ہے جسے بھارت میں راکشس تل کہاجاتا ہے۔

دریائے ستلج چین سے بھارتی ریاست ہماچل پردیش سے ہوتا ہوا بھارتی پنجاب اور وہاں سے پاکستان کے ضلع قصور سے ہوتا ہوا ہیڈ سلیمانکی سے جا ملتا ہے۔

مشرقی دریاؤں سے ہر سال اوسطاً 19ملین ایکٹر فٹ پانی پاکستان میں آتا تھا لیکن سندھ طاس معاہدے سے قبل اور اس کے بعد بھارت نے راوی اور ستلج پر کئی ڈیمز اور کنال تعمیر کر کے پانی کے بہاؤ کو راجھستان اور دیگر ریاستوں کی جانب موڑ دیا، جس کے بعد ان دریاؤں سے سالانہ پانی کی آمد تین لاکھ ایکڑ فٹ سے بھی کم رہ گئی، لیکن یہ کرنا اس لیے آسان تھا کہ مشرقی دریاؤں کا منبع اور محل وقوع بھارت کےلیے سازگار تھا ۔

لیکن پاکستان کے مغربی دریاؤں پر صورتحال مختلف ہے، دریائے سندھ، چین کے علاقے تبت سے نکلتا ہے اور مقبوضہ کشمیر سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔

جہلم کا آغاز مقبوضہ کشمیر کے پیر پنجال پہاڑی سلسلے میں ویری ناگ چشمے سے ہوتا ہے، جہاں سے یہ سری نگر سے ہوتا ہوا آزاد کشمیر اور پھر ضلع جہلم سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے، جبکہ چناب کا منبع بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں ہے،یہ دریا سیال کوٹ میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے پانی کو روکنا اور اسے بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرف موڑنا آسان نہیں کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کی وادی ہمالیہ اور پیر پنجل پہاڑی سلسلے کے درمیان گھری ہوئی ہے اور دریاؤں کو موڑنے کےلیے ان پہاڑوں میں 300 کلومیٹر سے زائد سرنگیں بنانی پڑیں گی جس کےلیے کثیر سرمایہ درکار ہوگا۔

دریائے چناب جو بھارتی ریاست ہماچل پردیش سے آتا ہے لیکن اس کا راستہ پتلا اور گہری گھاٹیوں پر مشتمل ہے اور اس کو موڑنا بھی کافی مشکل ہے، البتہ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت ان دریاؤں پرمزید بند باندھ کرپانی کا استعمال بڑھا سکتا ہے جس کے باعث پاکستان کو ملنے والے پانی میں کمی ہوگی جبکہ یہ ڈیمز بھارت کا پانی پر کنٹرول کی صلاحیت بڑھا دیں گے، یعنی بھارت پانی اپنی مرضی کا اخراج کرے گا جس سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

مزید خبریں :