20 مارچ ، 2017
زرعی ملک ہونے کےناطے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے پانی کی آمد پر ہوتا ہے۔ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کےلئے کافی اہم ہے۔اس معاہدے کی ضرور ت 1948 میں اس وقت پیش آئی جب بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کردیا ۔دونوں ملک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث عالمی برادری متحرک ہوئی اور 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہد ہ طے پایا ۔
اس معاہدےکے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طورپر168 ملین ایکڑفٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ ،جہلم اور چناب سے سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کاحق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہےجبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی،بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔
چوں کہ مغربی دریاوں میں کئی کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیرمیں تھا اس لئے بھارت کو 3اعشاریہ6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنےاور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی لیکن بھارت نے معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کےلئے استعمال کرنا شروع کردیا اور مقبوضہ علاقوں سے گزرنے والے دریاؤں میں یعنی سندھ ، چناب اور جہلم پر 15 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے جبکہ مزید 45 سے 61 ڈیمز بنانے کی تیاری کررہا ہے ۔
اس کے علاوہ ان دریاؤں پر آب پاشی کے 30 سے زائد منصوبے بھی مکمل کئے گئے ہیں ۔حال ہی میں آنے والی خبروں کے مطابق اب بھارت 15 ارب ڈالر کی لاگت سے مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کرہا ہے جس میں 1856 میگاواٹ کا سوا لکوٹ پاور پروجیکٹ بھی شامل ہے ۔ کشن گنگا ، رتل ، میار ،لوئر کلنائی ،پاکال دل ہائیڈروالیکٹرک پلانٹ اور وولر بیراج نیوی گیشن پروجیکٹ پر بھی کام کا آغاز کررہا ہے جن کا مقصد بظاہر تو بجلی بنانا ہے لیکن اس کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا بتایا جاتا ہے ۔
بھارت پاکستان کو دباؤ میں لانے کےلیے کئی بار سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے جبکہ دریاؤں کا رخ موڑنے کا اعلان بھی کرتا نظر آتا ہے لیکن کیا ایسا کرنا اتنا آسان ہے ۔۔۔۔ ؟ یہ جاننے کےلیے اس معاہدے کے تحت آنے والے دریاؤں کے ماخذ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
دریائے راوی کا منبع بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع چمبہ کا پہاڑی سلسلے ہے جو’آر ایف چولن‘ کے چھوٹےسے گاؤں کے نزدیک ہے۔ اسی طرح دریائے بیاس بھی اسی ریاست کے علاقے بیاس کُنڈ سے نکلتا ہے اور بھارت کے سرحدی شہر فیروزپور پر دریائے ستلج میں جاملتا ہے یعنی دریائے بیاس پورا کا پورا بھارت میں بہتا ہے۔دریائے ستلج کی بات کی جائے تو اس کا منبع چین کے علاقے تبت میں ایک جھیل کے قریب ہے جسے بھارت میں راکشس تل کہاجاتا ہے۔
دریائے ستلج چین سے بھارتی ریاست ہماچل پردیش سے ہوتا ہوا بھارتی پنجاب اور وہاں سے پاکستان کے ضلع قصور سے ہوتا ہوا ہیڈ سلیمانکی سے جا ملتا ہے۔
مشرقی دریاؤں سے ہر سال اوسطاً 19ملین ایکٹر فٹ پانی پاکستان میں آتا تھا لیکن سندھ طاس معاہدے سے قبل اور اس کے بعد بھارت نے راوی اور ستلج پر کئی ڈیمز اور کنال تعمیر کرکے پانی کے بہاؤ کو راجستھان اور دیگر ریاستوں کی جانب موڑ دیا جس کے بعد ان دریاؤں سے سالانہ پانی کی آمد تین لاکھ ایکڑ فٹ سے بھی کم رہ گئی لیکن یہ کرنا اس لیے آسان تھا کہ مشرقی دریاؤں کا منبع اور محل وقوع بھارت کےلیے سازگار تھا۔
مگر پاکستان کے مغربی دریاؤں پر صورتحال مختلف ہے، دریائے سندھ، چین کے علاقے تبت سے نکلتا ہے اور مقبوضہ کشمیر سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔جہلم کا آغاز مقبوضہ کشمیر کے پیر پنجال پہاڑی سلسلے میں ویری ناگ چشمے سے ہوتا ہے جہاں سے یہ سری نگر سے ہوتا ہوا آزاد کشمیر اور پھر ضلع جہلم سے پاکستان میں داخل ہوتا ہےجبکہ چناب کا منبع بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں ہے۔یہ دریا سیالکوٹ میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے پانی کو روکنا اور اسے بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرف موڑنا آسان نہیں کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کی وادی ہمالیہ اور پیر پنجل پہاڑی سلسلے کے درمیان گھری ہوئی ہے اور دریاؤں کو موڑنے کےلیے ان پہاڑوں میں 300 کلومیٹر سے زائد سرنگیں بنانی پڑیں گی جس کےلیے کثیر سرمایہ درکار ہوگا۔
دریائے چناب جو بھارتی ریاست ہماچل پردیش سے آتا ہے اس کا راستہ پتلا اور گہری گھاٹیوں پر مشتمل ہے اور اس کو موڑنا بھی کافی مشکل ہےالبتہ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت ان دریاؤں پرمزید بند باندھ کرپانی کا استعمال بڑھا سکتا ہے جس کے باعث پاکستان کو ملنے والے پانی میں کمی ہوگی جبکہ یہ ڈیمز بھارت کو پانی پر کنٹرول کرنے کی مزید صلاحیت دیں گے، یعنی بھارت پانی کا اخراج اپنی مرضی سے کریں گا جس سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔