28 مئی ، 2018
اسلام آباد: پاکستانی کی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسددرانی کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیاگیا۔
ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کے انٹیگریٹیڈ بارڈر منیجمنٹ سسٹم میں اسددرانی کانام شامل کردیاگیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ اسد درانی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی توثیق کل ہونے والے اجلاس میں کرے گی۔
خیال رہے کہ اسد درانی کو ان کی متنازع کتاب پر وضاحت کے لیے 28 مئی کو جی ایچ کیو طلب کیا تھا۔
اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے مجاز اتھارٹی سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کو حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب 'دی اسپائے کرونیکلز' میں خود سے منسوب خیالات کی وضاحت کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا گیا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں کورٹ آف انکوائری تشکیل دے دی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسد درانی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے مجاز اتھارٹی سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے سابق آئی ایس آئی سربراہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے حکام وزارت داخلہ اور ایف آئی اے سے رابطہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ 25 مئی کو ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بتایا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی کو 28 مئی کو جی ایچ کیو طلب کیا جارہا ہے، جہاں وہ بتائیں گے کہ ان کی کتاب میں ان سے منسوب باتیں درست ہیں یا نہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ تمام حاضر اور ریٹائرڈ فوجیوں پر لاگو ہوتا ہے اور کتاب میں اسد درانی سے منسوب خیالات اس کی خلاف ورزی ہے۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی اگست 1990 سے مارچ 1992 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے ہیں، جنہوں نے سابق 'را' چیف اے ایس دلت کے ساتھ مل کر ایک کتاب 'دی اسپائے کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس' لکھی ہے۔
کتاب میں جن معاملات پر روشنی ڈالی گئی، اُن میں کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا آپریشن، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
اس کتاب کی رونمائی گزشتہ دنوں بھارت میں کی گئی، تاہم نئی دہلی میں ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے اسد درانی کو بھارت کا ویزہ بھی نہیں ملا تھا۔
پاکستانی سیاسی قیادت کی تنقید
اس کتاب کی اشاعت پر پاکستان کی سیاسی قیادت نے سنگین خدشات ظاہر کیے تھے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اسد درانی کی کتاب پر قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ کتاب کسی سویلین یا سیاستدان نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو اس پر 'غدار' کا فتویٰ لگا دیا جاتا۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
قانونی ماہرین کے مطابق اگر جنرل (ر) اسد درانی اپنی وضاحت میں فوجی حکام کو مطمئن نہ کرسکے اور ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے تو ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں اس ایکٹ میں تبدیلی کی گئی تھی، جس کے بعد فوج کو کسی سویلین کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار حاصل ہوگیا۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت عمر قید اور سزائے موت سمیت مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کو جی ایچ کیو طلب کیا جانا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے مطابق کوئی بھی شخص ملک اور قانون سے بالا تر نہیں۔