اصغرخان کیس: سپریم کورٹ کی تمام افراد کو ہفتے تک تحریری جواب جمع کرانےکی ہدایت


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران تمام افراد کو ہفتہ (9 جون) تک تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سویلین افراد کو ایف آئی  اے کے سامنے پیش ہونا ہوگا، جبکہ اس بات کا تعین عدالت کرے گی کہ کن کا ٹرائل فوج میں ہونا ہے اور کن کا سویلین اداروں میں۔

واضح رہے کہ مذکورہ کیس کی 2 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے 1990 کی انتخابی مہم کے دوران پیسے وصول کرنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف، سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی اور عابدہ حسین سمیت21 سویلین کو نوٹس جاری کیے تھے۔

دوسری جانب عدالت عظمیٰ کی جانب سے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی سمیت کیس سے متعلقہ آرمی افسران، ڈی جی نیب اور ڈی جی ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آج اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران متعدد سیاسی رہنماؤں کے وکلاء اور سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی عدالت میں پیش ہوئے۔

نواز شریف کو ایک گھنٹے میں پیش ہونے کا حکم

سماعت کے آغاز پر جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ 'میاں نواز شریف کہاں ہیں؟انہیں نوٹس دیا تھا وہ کیوں نہیں آئے؟ ٹی وی چینلز پر ٹکرز بھی چلے جبکہ آج اخبارات کی لیڈ سٹوری بھی یہی ہے'۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر نواز شریف اسلام آباد میں ہیں تو وہ ایک گھنٹے میں عدالت میں پیش ہوں، یہ عدالت کا حکم ہے ہر کسی کو آنا پڑےگا۔'

اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ نواز شریف اس وقت احتساب عدالت میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف کے وکیل ہیں، تو ان کو بھجوا دیں۔

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ میاں نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے باعث سپریم کورٹ نہیں آسکے، تاہم وہ اپنے وکیل کا بندوبست کر رہے ہیں۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے کہا نواز شریف آئندہ سماعت پر اپنے وکیل کے ذریعے پیش ہوں۔

چیف جسٹس کا جاوید ہاشمی سے مکالمہ

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی صاحب یہاں موجود ہیں، ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے پیسے لیے تھے؟'

جس پر جاوید ہاشمی نے جواب دیا کہ انہوں نے پیسے نہیں لیے۔

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ 'میں نے 5 سال نیب کی عدالت میں کیس بھگت کر اس الزام کو کلیئر کیا'۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'بہت اچھی بات ہے،کرپشن کے خلاف کیسز میں آپ جیسے سیاستدانوں کو لیڈ کرنا چاہیے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نےآرمی افسران کا معاملہ آرمی کو ہی سونپ دیا ہے، وہ بھی اس معاملے کو اپنے قانون کے مطابق دیکھیں جبکہ اس کیس میں سویلینز کا معاملہ ایف آئی اے دیکھ رہی ہے۔

خورشید شاہ کو جاری نوٹس واپس

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ اعتزاز احسن نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ کے نام بھی نوٹس جاری ہوا، مگر ان کا اس کیس میں نام نہیں ہے۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے یہ کہہ کر خورشید شاہ کو جاری نوٹس واپس لے لیا کہ یہ نوٹس غلطی سے جاری ہوا۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت منگل 12 جون تک کے لیے ملتوی کردی۔

اصغر خان کیس ہے کیا؟

1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔

اس حوالے سے ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔

خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔

پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔

سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔

مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔

مزید خبریں :