29 جون ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز کو ہر حالت میں پیر (2 جولائی) تک حتمی دلائل ختم کرنے کی ہدایت کردی۔
دوسری جانب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو منگل (3 جولائی) کو طلب کرلیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔
گزشتہ روز مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران امجد پرویز نے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی طرح 7 دن نہیں لیں گے بلکہ تین سے چار دن تک حتمی دلائل مکمل کرلیں گے۔
آج سماعت کے آغاز پر مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے وکیل امجد پرویز نے حتمی دلائل دیتے ہوئے اعتراض اٹھایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نےمظہر رضا بنگش کا خط پیش کیا، لیکن اس خط کو ثابت کون کرسکتا ہے؟
امجد پرویز کے مطابق گواہ مظہر بنگش نے اپنے بیان میں کہا کہ جو ریکارڈ پیش کیا وہ سیل بند لفافے میں تھا، لیکن نیب کے گواہ زوار منظور نے کہا کہ جو لفافے مظہر بنگش نے دیئے وہ سیل نہیں تھے۔
ایڈوکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ جو دستاویزات مظہر بنگش کی جانب سے جمع کروائی گئیں وہ فوٹو کاپی تھیں، لہذا یہ دستاویزات قانون شہادت کے مطابق عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکتیں۔
امجد پرویز نے دلائل کے دوران کہا کہ التوفیق کیس میں شہباز شریف اور عباس شریف فریقین تھے۔
انہوں نے کہا کہ کوینز بنچ کے فیصلے کا متن بھی فرد جرم سے متعلق نہیں، بیان حلفی دینے والے شیزی نقوی اس عدالت کے سامنے نہیں، رحمان ملک کی رپورٹ آفیشل رپورٹ نہیں اور اسے ایف آئی نے بھی تسلیم نہیں کیا تھا، لہذا اب عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ کوینز بنچ کا فیصلہ قابل قبول شہادت ہے یا نہیں۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک ہیں اور نہ ہی 1993 سے قابض ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی مرحلے پر شریف فیملی کا تو پراپرٹی سے تعلق ہو سکتا ہے، لیکن نواز شریف کا نہیں۔
جج، نیب پراسیکیوٹر اور مریم نواز کے وکیل کے درمیان مکالمہ
سماعت کے دوران احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی اور مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کے درمیان مکالمہ ہوا۔
جج محمد بشیر نے کہا کہ منگل (3 جولائی) کو گواہ واجد ضیاء کو بلا لیتے ہیں۔
جس پر ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ واجد ضیاء کہتے تھے ڈھائی بجے کے بعد کام نہیں کرنا۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ لوگ ہفتےکو بھی کام نہیں کرتے اور عدالتی وقت کے بعد بھی کام نہیں کرتے۔
جس پر امجد پرویز نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹر مجھے نہ بتائیں کہ کیس کیسے لڑنا ہے۔
جس پر جج محمد بشیر نے ہدایت کی پیر (2 جولائی) کو ہر حالت میں حتمی دلائل ختم کریں۔
سماعت کے بعد عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیر (2 جولائی) تک ملتوی کرتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو منگل (3 جولائی) کو طلب کرلیا۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔
جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔