06 جولائی ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت میں زیرسماعت رہنے والا ایون فیلڈ ریفرنس شریف خاندان کے لندن میں موجود فلیٹس سے متعلق ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کے خلاف 8 ستمبر 2017 کو عبوری ریفرنس دائر کیا جس میں انہیں ملزم نامزد کیا۔
ریفرنس پر 14 ستمبر 2017 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے پہلی سماعت کی اور لگ بھگ ساڑھے 9 ماہ بعد آج اس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
احتساب عدالت نے عدم حاضری کی بنا پر حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے انہیں ریفرنس سے الگ کیا۔
ایک موقع پر مسلسل غیر حاضری پر عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جس کے ایک ماہ بعد یعنی 26 ستمبر کو نواز شریف پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے جب کہ ان کی صاحبزادی مریم نواز 9 اکتوبر کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
احتساب عدالت نے نواز شریف کے داماد کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی گرفتاری جاری کیے اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا۔
19 اکتوبر 2017 کو مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی، نواز شریف کی غیر موجودگی کے سبب ان کے نمائندے ظافر خان کے ذریعے فرد جرم عائد کی گئی۔
3 نومبر کو نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر ایک ساتھ عدالت میں پیش ہوئے اور 8 نومبر کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔
مزید شواہد سامنے آنے پر نیب نے 22 جنوری 2018 کو ضمنی ریفرنس دائر کیا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر 18 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔
11 جون 2018 کو حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے اور 19 جون کو وہ احتساب عدالت پہنچے اور دستبرداری کی درخواست واپس لے لی۔
عدالت نے گواہان پر جرح مکمل ہونے اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور مریم نواز و کیپٹن (ر) محمد صفدر کے وکیل امجد پرویز کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے 3 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا۔