پاکستان
Time 07 جولائی ، 2018

منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری کے قریبی ساتھی حسین لوائی کا جسمانی ریمانڈ منظور


کراچی: جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے گزشتہ روز گرفتار کیے جانے والے معروف بینکر حسین لوائی اور محمد طحہٰ کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

ایف آئی اے نےگزشتہ روز نجی بینک کے سربراہ اور آصف زرداری کے قریبی ساتھی حسین لوائی کو منی لانڈرنگ کیس میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا جہاں انہیں باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا۔

ایف آئی اے حکام ملزم حسین لوائی اور شریک ملزم محمد طحہٰ کو سخت سیکیورٹی میں کراچی کی سٹی کورٹ لائے جہاں انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

حسین لوائی کی جانب سے شوکت حیات ایڈووکیٹ نے اپنا وکالت نامہ عدالت میں جمع کرایا۔

ایف آئی اے حکام نے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس کی مخالفت کرتے ہوئے ملزمان کے وکیل نے کہا کہ حسین لوائی کو ایف آئی اے نے متعدد نوٹسز جاری کیے، انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرادیا ہے اور ایف آئی اے پہلے بھی بیان لے چکا ہے، اس لیے مزید کسی ریمانڈ کی ضرورت نہیں۔

ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ حسین لوائی کے خلاف جعلی اور گمنامی اکاؤنٹس کی تحقیقات جاری ہیں اور حوالے سےمزید تفصیلات درکار ہیں۔

عدالت نے ایف آئی اے کی استدعا منظور کرلی اور ملزمان کو 11 جولائی تک جسمانی ریمانڈ پر تحویل میں دے دیا۔

نہیں معلوم مجھ زرداری یا کسی اور وجہ سے گرفتار کیا گیا: حسین لوائی

عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں حسین لوائی نے کہا کہ میرا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں اور مجھ سے کوئی ریکوری نہیں ہوئی، کیس ریکوری کا نہیں منی لانڈرنگ کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ  2014 میں میرےخلاف انکوائری کی گئی، نہیں معلوم مجھےآصف زرداری یا کسی اور وجہ سے گرفتار کیا گیا، وقت بتائے گا کہ مجھے کیوں نشانہ بنایا گیا، فیصلہ آنے میں دیر ہے لیکن بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس مقدمے کے پیچھے کون ہے۔

صحافی نے حسین لوائی سے سوال کیاکہ ایف آئی اے کہتی ہے کہ آپ سے 4 ارب روپے برآمد ہوئے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ  نہ یہ برآمدگی کا معاملہ ہے اور نہ مجھے سے پیسے برآمد ہوئے، یہ تو وقت بتائے گا کہ منی لانڈرنگ ہوئی یا نہیں۔

واضح رہے کہ حسین لوائی سمیت 32 افراد کے خلاف بےنامی اکاؤنٹس کی تحقیقات جاری ہیں، ان اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانسیکشنز ہوئیں۔

ایف آئی اے ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ اکاؤنٹس 2014 میں چند ماہ کے لیے کھولے گئے تھے، ان اکاؤنٹس کی تحقیقات 2015 میں شروع ہوئی تھی تاہم دباؤ کے باعث ایف آئی اے نے یہ تحقیقات روک دی تھیں۔

مزید خبریں :