10 جولائی ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز میں فیصلے کے لیے مزید 6 ہفتوں کا وقت دے دیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سپریم کورٹ سے نیب ریفرنسز کی مدت سماعت میں 4 ہفتے کی توسیع کی درخواست کی تھی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے جج محمد بشیر کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی پیش ہوئے اور دلائل دیئے کہ شریف خاندان کے خلاف تینوں ریفرنسز میں شواہد اور گواہان ایک جیسے ہیں، جن میں 75 فیصد چیزیں مشترک ہیں، لہذا ان تینوں ریفرنسز کا ایک فیصلہ ہونا چاہیے، جبکہ اس حوالے سے پہلے بھی درخواست دی جاچکی ہے۔
خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دے چکے ہیں اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ معزز جج دیگر ریفرنسز نہیں سن سکتے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ کیس تعصب کی بنیاد پر سنا جائے گا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایک جج جس نے تمام ریفرنسز میں گواہان کے بیان لیے، اب وہ کیسے تبدیل ہو۔
جبکہ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس میرٹ کی بنیاد پر چل رہا ہے، ہم لکھ دیں گے کہ تعصب کے بغیر دیگر ریفرنسز سنے جائیں، ہم نے آپ کے دلائل سن لیے ہیں، ہم آپ کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔
خواجہ حارث نے عدالت کے روبرو کہا کہ بہتر ہوگا اس معاملے کی سماعت جج محمد بشیر صاحب خود کریں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ نے ہمارے سامنے معاملہ کیوں رکھا؟ آپ نے دلائل دیئے ہیں، ہمیں کچھ نہ کچھ آرڈر کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فلیگ شپ ریفرنس میں ٹرانزیکشنز ایک دوسرے سے نہیں ملتیں جبکہ فلیگ شپ اور العزیزیہ کیسز بھی ملتے جلتے نہیں ہیں۔
ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ریفرنسز کی سماعت کے لیے کتنا وقت درکارہے؟
نیب پراسیکیوٹر اکبر تارڑ نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ باقی ریفرنسز میں قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس بھی چل رہا ہے اور مفرور ہونے پر انہیں سزا ہوسکتی ہے۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کے فیصلے کے لیے مزید 6 ہفتے کا وقت دے دیا۔
ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس بھی 6 ہفتوں میں ہی مکمل کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے توسیع کے لیے چار ہفتے مانگے، آپ نے چھ ہفتے مانگے، ہم آپ کو چھ ہفتے دے رہے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ آپ دیئے گئے وقت میں کارروائی مکمل کریں گے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں (10 جولائی تک) فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی گئی مدت آج ختم ہوگئی، تاہم اب تک صرف ایک (ایون فیلڈ پراپرٹیز) ریفرنس کا فیصلہ ہی سنایا جاچکا ہے، جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس ابھی زیرِ سماعت ہیں، یہی وجہ ہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے مدت سماعت میں توسیع کی درخواست دائر کی گئی۔
شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانہ، بیٹی مریم نواز کو 8 سال قید اور جرمانہ اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔
دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے، جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔