06 جولائی ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 11 اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 جب کہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنادی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے فیصلے میں نوازشریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی کیا ہے اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو ضبط کرنے کا بھی حکم دیاہے جب کہ عدالت نے کیپٹن (ر) صفدر پر جرمانہ نہیں کیاہے۔
حسن اور حسین نواز کو سزا نہیں سنائی گئی: نیب پراسیکیوٹر
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے ملزمان کے فیصلوں سے متعلق میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ حسین نواز اور حسن نواز عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان سے متعلق سزا نہیں سنائی گئی۔
فیصلہ 174 صفحات پرمشتمل ہے جس میں ملزمان کو فرد جرم میں شامل نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے فائیو کے تحت سزا سنائی گئی۔
نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے فائیو زیرکفالت افراد یا بے نامی دار کے نام جائیداد بنانے سے متعلق ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق نواز شریف سمیت تمام ملزمان کرپشن کے پیسے سے جائیداد بنانے کے الزام سے بری ہیں۔
عدالت نے ملزمان کیخلاف فردجرم میں لگائی نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے فور سے بری کر دیا۔
نیب پراسیکیوٹر کے مطابق مریم نواز کو جھوٹی دستاویز جمع کرانے پر بھی ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جب کہ ملزمان کو قید بامشقت سنائی گئی ہے۔
سردار مظفر عباسی نے بتایا کہ نیب آرڈیننس میں سزا کے خلاف اپیل کے لیے 10دن رکھے گئے ہیں اس لیے ملزمان کو سزا کے خلاف 10 دن میں اپیل کا حق حاصل ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز لاہور کے حلقہ این اے 127 اور پی پی 137 جب کہ کیپٹن (ر) صفدر این اے 14 مانسہرہ سے امیدوار تھے جو عدالتی فیصلے کے بعد اب الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے۔
ایون فیلڈ ریفرنس کا تحریری فیصلہ جاری
ایون فیلڈ ریفرنس کے تفصیلی فیصلے میں حسین نواز کے ٹی وی انٹرویو، نوازشریف کے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب، جے آئی ٹی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق نوازشریف کو 10سال قید بامشقت اور 8 ملین پاونڈ جرمانہ کیا جاتا ہے، انہیں ایک سال اضافی سزا بھی دی گئی، نوازشریف کو شیڈول ٹو کے تحت مزید ایک سال قید کی سزا دی گئی جس کے تحت ان کو مجموعی طور پر 11سال قید بامشقت سنائی گئی، ان کی دونوں سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی۔
وفاقی حکومت کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ضبط کرنے کا حکم
تحریری فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ مریم نواز کو شیڈول ٹو کے تحت مزید ایک سال قید بامشقت کی سزا دی گئی، ان کو بھی مجموعی طور پر 8 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی،ان کی 7 سال اور ایک سال اضافی سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی جب کہ مریم نواز کو 2 ملین پاونڈ جرمانہ کیا جاتا ہے۔
فیصلے کے مطابق کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید مشقت کی سزا دی گئی ہے، اس کےعلاوہ عدالت نے وفاقی حکومت کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ضبط کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
حسن اور حسین نواز کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
عدالتی فیصلے میں حکم دیا گیا ہےکہ حسن اور حسین مفرور ہیں انہیں اشتہاری ملزم قرار دیا جائے جب کہ عدالت نے دونوں کے دوبارہ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرکے گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ حسین نواز نے خود تسلیم کیا کہ وہ لندن فلیٹس کے مالک ہیں، حسن نواز کے انٹرویو کے مطابق بھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ان کے زیر استعمال رہے۔
تفصیلی فیصلے کہا گیا ہےکہ مریم نواز اپنے والد نواز شریف کی جائیداد چھپانے کے لیے آلہ کار بنیں، انہوں نے جرم کے ارتکاب میں اپنے والد کی معاونت کی جب کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے بھی جرم کے ارتکاب میں معاونت کی۔
فیصلے کے مطابق 1993 میں مریم نواز کی عمر 18سال، حسین نواز 20 اور حسن نواز17سال کے تھے، تینوں ملزمان کم عمر تھے اور اپارٹمنٹس خریدنے کے وسائل نہیں تھے، عام طور پر بچے والدین کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں، نوازشریف یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے بچوں کو رقم نہیں دی۔
قطری خطوط سنی سنائی بات سے زیادہ کچھ نہیں، عدالتی فیصلہ
تحریری فیصلے میں بتایا گیا ہےکہ ملزمہ مریم نواز انتخابات لڑنے کے لیے 10 سال کے لیے نااہل ہوگئی ہیں جب کہ حسین نواز اور حسن نواز کے دائمی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ ملزمان نے قطری خطوط کے ذریعے لندن جائیداد کا کبھی پہلے ذکر نہیں کیا اور قطری خطوط سنی سنائی بات سے زیادہ کچھ نہیں، اپارٹمنٹس کے حوالے سے کوئی معاون دستاویز یا براہ راست ثبوت نہیں دیا گیا،
ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہےکہ مریم نواز کے سزا یافتہ ہونے سے الیکشن پر فرق نہیں پڑے گا، سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے بیلٹ پیپرز سے مریم نواز کا نام نکال دیا جائے گا اور نئے بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) نے احتساب عدالت کا فیصلہ مسترد کردیا
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے عدالتی فیصلے کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس کی اور فیصلے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاناما، ایون فیلڈ اور آف شور کمپنیوں میں نوازشریف کا نام نہیں، مقدمے میں کوئی ٹھوس قانونی دستاویز مہیا نہیں کی گئی، فیصلے میں بہت قانونی خامیاں ہیں اور فیصلہ ناانصافی کی بنیاد پر کیا گیا۔
آج ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ اور بلند ہوگیا: مریم نواز
عدالتی فیصلے کے بعد سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر اپنے رد عمل میں مریم نواز نے کہا کہ پاکستان میں 70 سال سے سرگرم نادیدہ قووتوں کے سامنے ڈٹ جانے کی یہ سزا بہت چھوٹی ہے، آج ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ اور بلند ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ شاباش نواز شریف! آپ ڈرے نہیں، آپ جھکے نہیں، آپ نے ذاتی زندگی پر پاکستان کو ترجیح دی،عوام آپ کے ساتھ کھڑی ہے، فتح آپ کی ہو گی۔
فیصلے میں تاخیر
اس سے قبل عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ ساڑھے 12 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس فیصلے کو پہلے ڈھائی بجے، پھر 3 بجے اور بعدازاں ساڑھے 3 بجے تک کے لیے مؤخر کردیا گیا۔
عدالت کی جانب سے فیصلے کو 4 بار مؤخر کرکے اسے ساڑھے تین بجے سنانے کا وقت دیا تھا گیا لیکن فیصلہ تاخیر کا شکار ہوگیا اور ایک بار پھر احتساب عدالت کے جج کی جانب سے بتایا گیا کہ فیصلہ سنانے میں 30 سے 40 منٹ لگ سکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز لندن میں موجودگی کی وجہ سے آج پیش نہیں ہوئے اور انہوں نے فیصلہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں ہی سنا جبکہ نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر مانسہرہ میں موجودگی کی وجہ سے عدالت نہیں آئے۔
نواز شریف، مریم نواز کی فیصلہ مؤخر کرنے کی درخواست مسترد
آج صبح 9 بجکر 40 منٹ پر جب سماعت کا آغاز ہوا تو نواز شریف کی لندن میں زیر علاج اہلیہ کلثوم نواز کی تازہ میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔
مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ بیگم کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق آئندہ 48 گھنٹے فیملی کا کلثوم نواز کے ساتھ ہونا ضروری ہے، لہٰذا فیصلے کو کچھ دن کے لیے مؤخر کردیا جائے۔
تاہم نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے فیصلہ مؤخر کرنے کی درخواست کی مخالفت کردی۔
جس کے بعد جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ مؤخر کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت11 بجے تک کے لیے مؤخر کردی۔
بعدازاں سماعت کے دوبارہ آغاز پر عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 3 جولائی کو شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے سنانے کے لیے 6 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی۔
تاہم گزشتہ روز نواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل ظافر خان کے توسط سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ مؤخر کرنے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وہ اس ٹرائل کا حصہ رہے ہیں اور مسلسل عدالت آتے رہے لیکن اچانک صورتحال تبدیل ہوئی اور ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی طبعیت شدید خراب ہوگئی۔
درخواست میں کہا گیا کہ ڈاکٹرز نے کلثوم نواز کی طبعیت میں بہتری تک واپس نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔
نواز شریف کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مجبوری کے باعث وہ 6 جولائی کو پاکستان نہیں آسکتے، جیسے ہی ان کی اہلیہ کی طبعیت بہتر ہوگی وہ پاکستان آئیں گے، لہٰذا کچھ دن کے لیے فیصلہ مؤخر کیا جائے۔
احتساب عدالت کے باہر سیکیورٹی انتظامات
احتساب عدالت میں سماعت کے موقع پر اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے رینجرز کو طلب کیا جبکہ 400 پولیس اہلکار بھی تعینات تھے۔
احتساب عدالت جانے والے تمام راستے عام ٹریفک کے لیے بند کردیئے گئے اور اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ تھی۔
نوازشریف نے فیصلہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں سنا، ذرائع
ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ اپنے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں ہی سنا اور اس موقع پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ان کے ہمراہ تھے۔
واضح رہے کہ کینسر کے مرض میں مبتلا بیگم کلثوم نواز کئی ماہ سے لندن میں زیرعلاج ہیں، گزشتہ ماہ 14 جون کو طبیعت خراب ہونے پر انہیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ اب تک وینٹی لیٹر پر ہیں، نوازشریف اور مریم نواز بھی اسی سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
عدالت نے عدم حاضری کی بناء پر حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دے کر ان کا کیس الگ کر رکھا ہے۔
مزید شواہد سامنے آنے پر نیب نے 22جنوری 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا ضمنی ریفرنس بھی احتساب عدالت میں دائر کیا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر 18گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے، جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔