الیکشن 2018: سندھ میں پی پی پی کی پوزیشن مضبوط مگر کیا فتح واقعی آسان ہوگی؟

صوبے میں پیپلز پارٹی روایتی طور پر انتخابات میں کامیاب ہوتی آئی ہے لیکن تحریک انصاف بھی اچھے نتائج کے حوالے سے پراعتماد ہے

جیسے جیسے 25 جولائی قریب آرہی ہے، سیاسی رہنما اپنی کارکردگی کم اور مخالفین کی کمزوریوں کا ذکر زیادہ کرکے عوام سے ووٹ مانگنے میں مصروف ہیں۔

جن علاقوں میں سیاسی جماعتیں گزشتہ انتخابات میں کچھ حاصل نہیں کرپائیں اس مرتبہ وہ وہاں بھی کامیابی کیلئے کوششیں کررہی ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نےخیبر پختونخوا اور پنجاب کے ساتھ ساتھ سندھ میں بھی انتخابی جلسے کیے۔

اس سے پہلے عمران خان یہ کہتے رہے کہ انہوں نے پہلے سندھ اور کراچی پر توجہ نہیں دی مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس کے بعد عمران خان نے سندھ میں سیاسی سرگرمیاں کیں۔

تحریک انصاف چیئرمین کی سندھ میں سرگرمیوں سے تو لگتا ہےکہ وہ پرامید ہیں کہ اس مرتبہ سندھ میں تحریک انصاف اپنی جگہ بنا لے گی۔

دوسری طرف تحریک انصاف کےوائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اپنی پارٹی کے سندھ چیپٹر کی کارکردگی پر خوش نہیں ۔

کچھ روز قبل ملتان میں میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی کہہ رہے تھے کہ سندھ تحریک انصاف کیلئے تیار ہے لیکن تحریک انصاف سندھ کی قیادت پوری طرح تیار نہیں لگ رہی۔

پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے بھی اتحاد کیا ہے لیکن اس کے باوجود شاہ محمود کو لگتا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف بنے ہوئے ماحول سے پی ٹی آئی سندھ کی قیادت فائدہ نہیں اٹھاسکی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ میں پوزیشن مضبوط ہے لیکن کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں سندھ میں پیپلز پارٹی کو سخت مقابلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے—اے ایف پی۔

حالیہ دنوں میں الیکشن سے متعلق آنے والے سروے بھی بتارہے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ میں پوزیشن مضبوط ہے لیکن کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں سندھ میں پیپلز پارٹی کو سخت مقابلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایسے اضلاع میں پاکستان تحریک انصاف اور نئے سیاسی اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور مقامی سیاسی حمایت پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف کی طرف منتقل ہونے کے سبب بھی پیپلزپارٹی کو مشکلات کا سامنا کر پڑسکتا ہے مگر اندرون سندھ سے ممکنہ نقصان کا ازالہ پیپلزپارٹی حیدر آباد اور کراچی میں ایم کیوایم کی تقسیم کا فائدہ اٹھا کر کرسکتی ہے۔

سندھ کے جن اضلاع میں پیپلزپارٹی کو سخت مقابلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور جو علاقے 2018 انتخابات میں پیپلزپارٹی کیلئے جیتنا ماضی کی نسبت آسان نہیں ہوں گے، ان میں بدین، دادو اور تھر پارکر شامل ہیں۔

دادو کی بات کریں تو یہاں این اے 234 دادو 1 سے الیکشن 2018 میں پاکستان تحریک انصاف نے لیاقت جتوئی اور پیپلزپارٹی کےعرفان ظفر لغاری میدان میں ہیں۔

دادو کا مہیسر قبیلہ جو پہلے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوتا تھا اب وہ بھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تعلق جوڑ چکا ہے۔

صرف مہیسر گروپ ہی نہیں دادو علاقے کے دیگر قبائلی رہنما بھی جو 2008 اور 2013 میں پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے تھے، ان میں سے اکثر قبائل اب تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔

دادو کی دوسری نشست این اے 235 پر بھی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں میں سخت مقابلے کا امکان ہے جہاں لیاقت جتوئی کے بیٹے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں۔

2013 میں دادو سے قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں سے پیپلزپارٹی کے امیدوارکامیاب ہوئے تھے۔

ضلع تھرپارکر سےقومی اسمبلی کی دو نشستوں پر جے ڈی اے اور تحریک انصاف کے درمیان سیٹ ایڈجسٹ منٹ ہوئی ہے۔

یہاں این سے 221 اور 220 دونوں نشستوں سے پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

یہاں این اے 220 عمر کوٹ سے تھر پارکر سے جی ڈی اے کے پلیٹ فارم

سے الیکشن لڑنے والے ارباب غلام رحیم پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں۔

پیپلزپارٹی نے یہاں سے نواز یوسف تالپور کو اتارا ہےلیکن ارباب غلام رحیم کے پی ٹی آئی کے حق میں دستبرداری کے بعد یہاں سے پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط لگ رہی ہے جبکہ این اے 221 تھرپارکر سے پاکستان پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کے شاہ محمو دقریشی کے مقابلے میں پیر نور محمد شاہ جیلانی کو انتخاب میں اتارا ہے۔

یہاں بھی تحریک انصاف کو سندھ کے سیاسی اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی حمایت حاصل رہے گی۔

توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف اس مرتبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو سخت مقابلے دے گی—اے ایف پی فائل۔

پیپلزپارٹی کو سب سے بڑا انتخابی دھچکا بدین میں لگ سکتا ہے جہاں سے پیپلزپارٹی سے طویل رفاقت ختم کرنے والا مرزا خاندان اس مرتبہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے ان کے مقابلے پر ہے۔

جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے این اے 229 بدین سے حسام مرزا پیپلزپارٹی کے میر غلام علی تالپور کا مقابلہ کریں گے جبکہ این اے 230 سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدا مرزا پیپلزپارٹی کے حاجی رسول بخش چانڈیو کے مد مقابل ہوں گی۔

2013 میں بدین کی قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدوار فہمیدہ مرزا اور سردار کمال خان کامیاب ہوئے تھے۔

مرزا خاندان 2015 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کو بدین شہر سے ہرا چکا ہے۔

مقامی طور پر اس علاقے میں مرزا خاندان کافی مضبوط ہے اور امکان یہی ہے کہ یہاں سے مرزا فیملی عام انتخابت میں بھی پیپلزپارٹی کو بڑا سیاسی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

اندرون سندھ سے انتخابات میں امکانی طور پر ہونے والے نقصان کا ازالہ پیپلزپارٹی حیدر آباد اور کراچی سے کرسکتی ہے جہاں ایم کیوایم پاکستان کی صورتحال ماضی جیسی نہیں رہی۔

پارٹی تقسیم اور پی ایس پی کے آنے کے بعد یہاں متوقع طور پر بٹنے والے ووٹ کا فائدہ پیپلزپارٹی اٹھا سکتی ہے۔

حیدر آباد شہر سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں این اے 225 حیدرآباد 1سے پیپلزپارٹی پہلے بھی جیتتی رہی ہے۔

اس مرتبہ پیپلزپارٹی نے یہاں سے سید حسین طارق کو نامزد کیا ہے جبکہ ان کے مقابلے پر پیپلزپارٹی کی ہی کی سابق رہنما ناہید خان گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی امیدوار ہیں، یہاں ایم کیوایم پاکستان مقابلے میں نہیں ہے۔

حیدر آباد کے دیگر دو حلقے این اے 226 اور 227 روایتی طور پر ایم کیوایم کے مضبوط حلقے رہے ہیں۔

2018 انتخابات میں یہاں سے ایم کیوایم پاکستان کے صابر حسین پیپلزپارٹی کے علی محمد سہتو سے مقابلہ کریں گے جبکہ این اے 227 حیدرآباد 3 سے ایم کیوایم پاکستان کے صلاح الدین کے مقابلے پر پیپلزپارٹی نے اپنا امیدوار نہیں اتارا بلکہ پیپلزپارٹی جے یو پی نورانی کے امیدوار صاحبزادہ ابوالخیر زبیر کی حمایت کرے گی۔