سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی کو لیاری سے دوسری شکست

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پہلی بار انتخابی میدان میں اترے لیکن اپنے ہی گڑھ لیاری سے ناکام ہوگئے

عام انتخابات 2018 میں تحریک انصاف وفاق کی جماعت بن کر ابھری ہے اور وفاق میں تین بار حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی تیسرے نمبر کی جماعت رہی جب کہ مسائل کے دلدل میں دھنسی سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اس بار قومی اسمبلی میں دوسرے نمبر پر آکر حزب اختلاف کی بینچوں پر بیٹھے گی۔

حالیہ انتخابات میں بات کی جائے پیپلزپارٹی کی تو اس نے عام انتخابات 2013 کے مقابلے میں اس بار انتخابی بساط پر اپنے مہرے اچھے طریقے سے لڑے جس سے اس نے گزشتہ انتخابات کی 29 جنرل نشستوں کے مقابلے میں 43 نشستیں جیت لیں۔

پیپلزپارٹی نے انتخابات 2013 کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں اپنے گھر سندھ کا دفاع کیا ہے اور صوبے سے 75 جنرل نشستیں جیت کر حکومت بنانے کے لیے اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ہے جب کہ عام انتخابات میں بھی پی پی نے سندھ سے 65 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں۔

عام انتخابات 2018 میں پیپلزپارٹی نے جہاں مجموعی طور پر اپنے آپ کو بہتر کیا ہے وہیں اس کے گڑھ لیاری میں گڑھا پڑ گیا ہے اور چیل چوک سے اس بار پی پی کا ووٹ چیل لے اڑی جو گیند بن کر بلے پر آگیا۔

لیاری سے پی پی کی پہلی فتح

اس بار انتخابات میں لیاری سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی پہلی انتخابی جنگ لڑنے کے لیے میدان میں اترے تھے، اسی حلقے سے ان کی والدہ سابق وزیراعظم شہید بے نظیر بھٹو 1988 کے انتخابات میں 72 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئی تھیں۔

لیاری سے پہلی بار کامیاب ہونے والے پی پی جیالے ستار گبول: فوٹو/ فائل

لیاری میں پیپلزپارٹی کی طرف سے الیکشن میں کامیاب ہونے والے پہلے جیالے مرحوم ستار گبول تھے جو پی پی رہنما نبیل گبول کے چچا تھے، ستار گبول کا شمار پیپلزپارٹی کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی کابینہ میں بھی شامل رہے۔

لیاری میں پیپلزپارٹی کو اپنی سیاسی تاریخ میں صرف ایک بار شکست کا سامنا رہا اور 1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست سے اس کے امیدوار عبدالکریم جت کو (ن) لیگ کے فاروق اعوان کے ہاتھوں شکست ہوئی لیکن یہ شکست ایک سخت مقابلے کے بعد صرف 300 ووٹوں کے فرق سے تھی۔

لیاری سے پی پی کو پہلی شکست

فاروق اعوان نے اس نشست پر 7795 ووٹ لیے جب کہ عبدالکریم جت نے 7357 ووٹ حاصل کیے تھے۔

لیکن اس بار لیاری کے عوام نے پیپلزپارٹی کو وہ جھٹکا دیا ہے جو اس کی انتخابی تاریخ میں رقم ہوگیا ہے۔

کراچی سے قومی اسمبلی کے اہم ترین حلقے این اے 246 ضلع جنوبی لیاری سے اس بار بلاول بھٹو سمیت مجموعی طور پر 16 امیدوار میدان میں اترے تھے جن میں سے 5 آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے تھے جب کہ بلاول کے مقابلے میں تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل تھی، اس کے علاوہ پی پی کے باغی جیالے شاہ جہان بلوچ بھی اپنے چیئرمین کے سامنے کمربستہ تھے۔

لیاری سے صوبائی نشستوں پر ہارنے والے پی پی امیدواران: انتخابی پوسٹر پیپلزپارٹی

لیاری، چاکیواڑہ، بہار کالونی، آگرہ تاج، بنگال آئل مل، بھیم پورہ، لی مارکیٹ، جونا مسجد، نیو کلری، بغدادی اور عیدو لین سمیت دیگر علاقوں پر مشتمل این اے 246 میں 19 یوسیز ہیں۔

9 لاکھ 8 ہزار 327 نفوس پر مشتمل این اے 246 میں 5 لاکھ 36 ہزار 668 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جن میں 5ہزار 940 مرد ووٹرز ہیں جب کہ 2 لاکھ 30 ہزار 478 خواتین ووٹرز ہیں۔

انہی لاکھوں ووٹرز کی بنیاد پر پیپلزپارٹی جنوبی کے صدر خلیل ہوت نے بلاول بھٹو کی کم از کم ایک لاکھ ووٹوں سے کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔

مگر اس بار پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو جہاں مالا کنڈ سے سبکی کا سامنا رہا وہیں اس کے گڑھ لیاری میں پیپلزپارٹی کے عہدیداران کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی اور بلاول اپنے ہی گڑھ میں کھودے گئے گڑھے میں جاگرے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار عبدالشکور شاد نے 52 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر 13 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی اور بلاول انتخابی دوڑ میں 39 ہزار سے زائد ووٹ لےکر تیسرے درجے کے امیدوار قرار پائے جب کہ ان کے سامنے نومولود جماعت تحریک لبیک کے امیدوار نے 42 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے۔

حلقےمیں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے امیدوار مولانا نورالحق کو 33 ہزار سے زائد ووٹ ملے اور وہ چوتھے نمبر پررہے۔

بلاول کے ایک لاکھ ووٹ لینے کے دعوے پر اس طرح پانی پھرا کے وہ 50 ہزار ووٹ بھی نہ لے سکے، لیاری سے 1997 کے بعد پی پی چیئرمین کی شکست کو پیپلز پارٹی تو دھاندلی قرار دے رہی ہے لیکن عوامی حلقوں میں اسے عوام کا بدلہ قرار دیا جارہا ہے۔

لیاری والوں نے جہاں پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی نشست پر لال جھنڈی دکھائی وہیں دونوں صوبائی نشستوں پی ایس 107 اور 108 پر بھی پی پی منی تکتی رہ گئی۔

لیاری سے پی ایس 108 پر کامیاب ہونے والے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار سید عبدالرشید: فوٹو انتخابی پوسٹر

حال ہی میں بحال ہونے والے دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عبدالرشید نے پی ایس 108 سے میدان مارا، حلقے میں 2 لاکھ 7 ہزار 724 رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 79 ہزار 192 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جن میں سے عبدالرشید نے 16 ہزار 821 ووٹ لیے جب کہ پی پی امیدوار عبدالمجید کے حصے میں 12 ہزار 252 ووٹ آئے۔

پی ایس 107 میں 2 لاکھ 21 ہزار 361 رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 86 ہزار 970 لوگوں نے ووٹ ڈالا جس میں سے پیپلزپارٹی کے جاوید ناگوری نے 14 ہزار 390 ووٹ لیے جب کہ ان کے مقابلے میں تحریک لبیک کے یونس سومرو نے 26 ہزار ووٹ لے کر انہیں 12 ہزار کے فرق سے میدان بدر کردیا۔

اس طرح پیپلزپارٹی کو عام انتخابات میں 1997 کے بعد دوسری مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو کوئی معمولی ہار نہیں بلکہ پارٹی کے سربراہ پہلی بار اپنے ہی گھر سے کھڑے ہوئے اور گھر والوں نے ہی ان سے منہ پھیر لیا۔

لیکن لیاری کی گلیوں میں اڑتا کچرا اور کئی علاقوں میں گندے پانی کے جوہڑ انتخابات سے پہلے ہی اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ پیپلزپارٹی کو اس بار انتخابات میں اعصاب شکن مقابلے کا سامنا ہوگا اور انتخابی مہم کے دوران بلاول کی ریلی پر لیاری میں پتھراؤ بھی اب یہ ثابت کررہا ہے کہ گھر کی بھیدیوں نے پیپلزپارٹی کی لنکا ڈھادی ہے۔

ملک بھر میں پی ٹی آئی کی لہر کے نتیجے میں قومی اسمبلی اور دینی جماعتوں کے مضبوط اتحاد کے سامنے نشست پر پی پی کی شکست کو دماغ کسی حد تک تو سلیم کرسکتا ہے لیکن نومولود جماعت تحریک لبیک نے بھٹو کے سیاسی قلعے میں ایسی دراڑ ڈالی ہے جسے پیپلزپارٹی شاید کبھی نہ بھلا پائے۔