27 اگست ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید 6 ہفتےکی مہلت مل گئی۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف ریفرنسز نمٹانے کی ڈیڈ لائن میں توسیع کے لیے 25 اگست کو سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور پراسیکیوٹر نیب عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت معزز جج صاحبان نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ریفرنسز کس سطح پر پہنچے ہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریفرنس 19 اور 20 میں واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کے بیانات قلمبند ہونے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وہ پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء سے پہلے مکمل جرح کرنا چاہ رہے ہیں۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ واجد ضیاء پر ایک ریفرنس میں جرح ہوچکی ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ٹرائل کورٹ کی کارروائی نہیں چلاسکتے، یہ احتساب عدالت کا ہی استحقاق ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میرے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ اپیل اور ٹرائل ایک ساتھ لےکر چلیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ اپیل اور ٹرائل ساتھ نہیں چلاسکتے، آپ کی کیا تجویز ہے؟
ساتھ ہی خواجہ حارث نے استدعا کی کہ 15 دسمبر تک کیسز مکمل کرنے کا وقت دیا جائے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'یہ وقت بہت زیادہ ہے، اتناوقت نہیں دیا جاسکتا، ہم صرف آپ کو 6 ہفتے دے سکتے ہیں'۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دونوں نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 6 ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ تحریری دلائل ہائی کورٹ میں جمع کروا دیں۔
شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔
اس کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال قید اور جرمانے، مریم نواز کو مجموعی طور پر 8 سال قید اور جرمانے جبکہ ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی اور وہ اس وقت جیل میں ہیں۔
دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے، جو اس وقت زیرِ سماعت ہیں۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے، جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا تھا جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔
ڈیڈ لائن میں توسیع
ابتدا میں سپریم کورٹ نے ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو چھ ماہ کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر نے 4 مرتبہ ریفرنسز کی مدت میں توسیع حاصل کی۔
انہیں رواں برس مارچ میں دو ماہ، مئی میں ایک ماہ، جون میں ایک ماہ اور جولائی میں 6 ہفتوں کی توسیع دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے آخری بار 10 جولائی کو احتساب عدالت کی ڈیڈ لائن میں 6 ہفتوں کی توسیع کی تھی۔