پاکستان

ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ،انکوائری رپورٹ کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں

چیف جسٹس پاکستان نے ڈی پی او کے تبادلے کا از خود نوٹس لیا تھا: فائل فوٹو/ رضوان گوندل

لاہور: ڈی پی او پاکپتن تبادلے کے معاملے پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی انکوائری رپورٹ جیو نیوز نے حاصل کرلی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مداخلت انکوائری کے دائرہ اختیار سے باہر قراردے دی گئی۔

ایڈیشنل آئی جی پنجاب ابوبکر خدا بخش نے اس معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے جو 11 صفحات پر مشمل ہے اور اس میں دو خواتین سمیت 17 افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں آئی جی پنجاب کلیم امام اور آر پی او کو کلین چٹ مل گئی اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ رات گئے آئی جی پنجاب نے آر پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کیوں کیا؟

خاور مانیکا کی پولیس سے مبینہ بدسلوکی کے حوالے سے ایڈیشنل آئی جی پولیس ابوبکر خدا بخش کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے مانیکا فیملی کو جان بوجھ کر ٹارگٹ کرنے کے الزامات کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ خاور مانیکا اور ان کے خاندان کے ساتھ ایک نہیں دو واقعات ہوئے۔

پہلا واقعہ 5 اگست کی رات سوا دو بجے اس وقت پیش آیا جب دربار بابا فرید گنج شکر کے راستے پر پیدل جانے والے دو نوجوان مرد و خاتون کو پنجاب پٹرولنگ پولیس کی پارٹی نے روک کر ان سے ناروا سلوک کیا۔ خاور مانیکا نے اس حوالے سے ڈی پی او کو زبانی شکایت کی لیکن ہدایت کے باوجود تحریری درخواست نہ دی۔

دوسرا واقعہ 23 اگست کو پیش آیا جب پولیس نے رات پونے ایک بجے خاور مانیکا کو روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے گاڑی بھگا دی، جب ایلیٹ فورس کی گاڑیوں نے تعاقب کر کے انہیں روکا تو انہوں نے گاڑی کی تلاشی دینے سے انکار کر دیا۔خاور مانیکا نے ڈی پی او کو فون کیا جس نے پولیس ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ خاور مانیکا کو جانے دیں۔

فون بند ہونے کے بعد خاور مانیکا نے پولیس والوں کو گالیاں دیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ خاور مانیکا نے گالیاں دینے سے انکار کیا ہے تاہم وہ اس حوالے سے ضمنی سوالات سے بچنے کے لیے انکوائری کمیٹی کے روبرو پیش نہیں ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کی مزید انکوائری کی جائے اور اگر خاور مانیکا کا گالیاں دینا ثابت ہو جائے تو ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن نے 5 اگست سے 23 اگست تک معاملے پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔

اعلیٰ پولیس افسر نے انکوئری میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی انٹری کو انکوائری کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا ہے جبکہ آئی جی پنجاب کلیم امام اور آر پی او کو کلین چٹ دے دی ہے کہ انہوں نے رضوان گوندل کو مانیکا فیملی کے ڈیرے پر معافی مانگنے کے لیے جانے کا نہیں کہا، لیکن اس کی وجہ رضوان گوندل کے پہلے بیان کو قرار دیا گیا ہے جس میں انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا۔

رپورٹ میں آئی جی پنجاب کا کوئی بیان یا حلف نامہ شامل نہیں ہے۔انکوائری رپورٹ میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ رات ایک بجکر سات منٹ پر آئی جی پنجاب نے آر پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کیوں کیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پنجاب حکومت نے ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کا تبادلہ کیا تھا، ڈی پی او پر خاور مانیکا کی بیٹی سے مبینہ بدتمیزی کا الزام عائد کیا گیا ہے جب کہ ڈی پی او کا مؤقف ہے کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ڈی پی او کے تبادلے کا از خود نوٹس لیا تھا جس پر گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت نے رضوان گوندل کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا جب کہ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ یا اس کے پاس بیٹھے شخص کے کہنے پر تبادلہ ہوا تو یہ درست نہیں، کسی وزیراعلیٰ کے لیے بھی آرٹیکل 62 ون ایف کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

مزید خبریں :