25 ستمبر ، 2018
کراچی: جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے کیس میں ضمانت پر رہا سابق صدر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے۔
سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور، اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور ان کے تینوں بیٹوں سمیت دیگر کی ضمانت پر رہائی کا آج آخری روز تھا اور تمام ملزمان بینکنگ کورٹ کے روبرو پیش ہوئے۔
بینکنگ کورٹ کراچی میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے درخواست پر کارروائی کی مخالفت کی۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اومنی گروپ کے اکاؤنٹس سے متعلق کسی بھی قسم کا فیصلہ دینے سے روکا ہے جس پر انور مجید کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرڈر جاری کرنے سے منع کیا ہے دلائل دینے سے نہیں۔
اس موقع پر بینکنگ کورٹ کے جج نے کہا کہ پہلے سپریم کورٹ کا حکم نامہ پڑھ لیں اس کے بعد فیصلہ کریں گے۔
انور مجید کے وکیل نے استدعا کی کہ ایف آئی اے کو حتمی چالان پیش کرنے کا کہا جائے جس پر عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کے پاس ہے اس لیے ہم ایف آئی اے کو چالان کے لیے ٹائم فریم کا کہہ سکتے ہیں۔
عدالت نے 5 مفرور ملزمان کے ایک مرتبہ پھر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے سماعت 16 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی، مفرور ملزمان میں حسین لوتھا، عارف خان، اعظم وزیر خان سمیت دیگر شامل ہیں۔
یاد رہے کہ جعلی اکاؤنٹس از خود نوٹس کیس سپریم کورٹ میں بھی زیرسماعت ہے اور گزشتہ روز اعلیٰ عدالت نے ماتحت عدالتوں کو حکم دیا تھا کہ کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر
ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔