پاکستان
Time 25 ستمبر ، 2018

مبینہ پولیس مقابلے میں 10 سالہ امل کی ہلاکت: سپریم کورٹ نے کمیٹی قائم کردی

 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر موجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی—۔فائل فوٹو/ بشکریہ سوشل میڈیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ماہ کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران 10 سالہ بچی امل عمر کے جاں بحق ہونے کے معاملے کی سماعت کے دوران پولیس ٹریننگ اور قواعد میں ضروری ترامیم، پرائیویٹ اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج اور واقعے کے ذمہ داران کے تعین کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی۔

کمیٹی میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ، بیرسٹر اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، ایڈووکیٹ عمائمہ اور دیگر شامل ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر مبینہ پولیس مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر موجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔

رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ امل کی موت پولیس اہلکار کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی، جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے واقعے کا نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آج مذکورہ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران امل کے والدین بینش اور عمر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر بچی کی والدہ بینش عمر واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے زاروقطار رو پڑیں۔

انہوں نے بتایا کہ 13 اگست کی شب وہ کراچی میں اختر کالونی کے سگنل پر کھڑے تھے کہ ڈاکوؤں نے انہیں لوٹا اور تھوڑی ہی دیر بعد عقبی اسکرین پر گولی لگی۔

والدہ کے مطابق جب انہوں نے پیچھے دیکھا تو امل سیٹ پر لیٹی ہوئی تھی اور دوسری بچی گاڑی میں نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔

بچی کی والدہ کے مطابق غور کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک گولی ڈگی اور سیٹ سے نکل کر امل کے سر میں لگ چکی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ فوراً امل کو قریبی اسپتال گئے، لیکن وہاں نہ ایمبولینس تھی اور نہ ہی اسپتال والے مصنوعی تنفس کا پمپ دینے پر رضامند ہوئے اور دوسرے مقام سے آنے والی ایمبولینس کے آنے سے قبل ہی امل چل بسی۔

بینش نے بتایا، 'میری بچی نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ د یا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم معاوضہ نہیں لینا چاہتے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا نہ ہو'۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ اسٹریٹ کرائم میں اے کے47 گن پولیس کو استعمال کرنے کی اجازت کس نے دی؟ جبکہ پولیس پہلے تو ماننے پر تیار ہی نہیں تھی کہ گولی کس کی لگی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم کابل، شام، کشمیر، لبنان یا فلسطین میں نہیں رہتے، ہم کراچی میں رہتے ہیں'۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کسی بھی قسم کی ہمدردی غمزدہ والدین کے غم کا ازالہ نہیں کر سکتی۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ، بیرسٹر اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، ایڈووکیٹ عمائمہ اور دیگر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی، جو  پولیس ٹریننگ اور قواعد میں ضروری ترامیم، پرائیویٹ اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج اور واقعے کے ذمہ داران کا تعین کرے گی۔

عدالت عظمیٰ نے پرائیویٹ اسپتال کے مالک کو بھی آئندہ سماعت پر حاضر ہونے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت جمعرات (27 ستمبر) تک کے لیے ملتوی کردی۔

مزید خبریں :