Time 05 اکتوبر ، 2018
پاکستان

بے نظیر بھٹو قتل کیس: پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کی درخواست مسترد


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں 2 پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کی درخواست مسترد کردی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا پانے والے سابق ایس پی خرم شہزاد اور سابق سی پی او سعود عزیز کی سزاؤں کے باوجود ہائیکورٹ سے ضمانتوں کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ضمانتوں کو برقرار رکھا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، فرحت اللہ بابر، مہرین انور راجا اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔

یاد رہے کہ 31 اگست 2017 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس پی خرم شہزاد اور سابق سی پی او سعود عزیز کو مجموعی طور پر 17، 17 سال قید کی سزا کا حکم سنایا تھا تاہم ہائیکورٹ نے پولیس افسران کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

آج کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار رشیدہ بی بی کا انتقال ہوگیا ہے۔

اس موقع پر پولیس افسران کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست گزار کے انتقال سے درخواستیں غیر موثر ہو چکی ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا بیوہ کے لواحقین نے درخواست دائر کر رکھی ہے، گزشتہ سماعت پر رشیدہ بی بی کی بیٹی فریق بن گئی تھی۔

عدالت نے پولیس افسران کی درخواست غیر موثر قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا 'ضمانتیں کس بنیاد پر دی گئیں، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی تحقیقات کیں،  انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ضمانتیں نہیں لی جا سکتیں اور آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی'۔

بینچ کے سربراہ نے کہا بے نظیر بھٹو کو حفاظتی حصار دیا جانا تھا اور سی پی او ذمہ دار تھا، سعود عزیز نے ایس ایس پی اور دیگر نفری کو بھجوا دیا، بی بی کو پوائنٹ بلینک رینج سے گولی ماری گئی، انہوں نے کراچی اترنے سے پہلے کچھ لوگوں کو نامزد بھی کیا تھا۔

جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا 'کیا ملزمان کی ضمانت کو اسٹیٹ نے چیلنج کیا' جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا اسٹیٹ نے ملزمان کی ضمانت کو چیلنج کر رکھا ہے اور میں نے بھی چیف جسٹس صاحب کو کہا کہ ہماری درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کریں تاہم ہماری عدالت نے ایک مرتبہ بھی سماعت مقرر نہیں کی۔

لطیف کھوسہ نے کہا ملزمان نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم بھی نہیں کروایا، انسداد دہشت گردی عدالت سے 17 سال قید کی سزا کے ملزمان کو ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا سی پی او پہلے دن سے ہی سازش میں ملوث تھا، ابھی حکم نامے کی تحریر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی کہ ضمانت پر رہائی دی گئی، پرویز مشرف بھی اسی مقدمے میں نامزد ہے جس نے ججز کو بھی بند کیا۔

جسٹس آصف سعید نے ریمارکس میں کہا برطانوی نشریاتی ادارے نے دس سیریز پر مشتمل ڈاکیومنٹری بنائی جس کا عنوان قتل رکھا جس میں جتنی تحقیقات کی گئیں اتنی ہماری ایجنسیوں نے نہیں کی، ہم نے اس نقطہ کو بھی دیکھنا ہے کہ معصوم لوگوں کو پھنسایا تو نہیں جارہا۔

جب کرائم سین دھویا گیا تو میں نے دوستوں سے کہا یہ کیا کر رہے ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ

وکیل لطیف کھوسہ نے بینچ کے سربراہ سے مکالمے کے دوران کہا آپ کہتے ہیں کہ شک کی بنیاد پر ضمانتیں منسوخ کی گئیں، ٹرائل کورٹ نے اس کیس کو سنجیدہ ہی نہیں لیا، اس خطے کی سب سے وژنری لیڈر کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ملزمان کو قصور وار ٹھہرایا اور جنرل پرویز مشرف سب کچھ کنٹرول کررہے تھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا پرویز مشرف کے سب کچھ کنٹرول کرنے کی بات فرضی ہے جس پر وکیل نے کہا واقعاتی شہادتوں میں ثبوت موجود ہیں۔

جسٹس کھوسہ نے کہا بی بی کی شہادت میرے لیے بھی صدمے کا باعث بنی، جب کرائم سین دھویا گیا تو میں نے دوستوں سے کہا یہ کیا کر رہے ہیں، شک کبھی ثبوت کا متبادل نہیں بن سکتا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے اس پر کہا کہتے ہیں ملزم عدالت کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے، یہ کہہ کہہ کر ہم نے قانون کا بیڑا غرق کردیا ہے، ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو ایسے لیا جیسے چوری کا کیس ہو جس پر جسٹس آصف سعید نے کہا فیصلے کے لیے ثبوت درکار ہوتے ہیں۔

لطیف کھوسہ نے عدالت سے استدعا کی سپریم کورٹ ملزمان کی ضمانت منسوخ کرے ٹرائل چلتا رہے جس پر جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا 'ایسی کون سی چیز حاصل کی گئی، جس کی بنیاد پر ضمانت منسوخ کی جائے؟ جس پر وکیل نے کہا سوال کچھ حاصل کرنے یا کھونے کا نہیں، سوال قانون کی حکمرانی کا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کیا ہائیکورٹ نے کچھ سوالات اٹھائے اور کیا ان سوالات کا مقدمے میں دیکھا جانا ضروری ہے۔

بینچ کے سربراہ نے کہا ملزمان کو ضمانت ملے ایک سال ہو چکا جس پر وکیل نے کہا یہ تو آپ کا قصور ہے، یہ سسٹم کا بھی قصور ہے، جسٹس کھوسہ نے کہا وکیل کو کہا آپ یہاں سسٹم کا لفظ استعمال کریں، پولیس افسران کے جیل جانے سے آپ کو کیا ملے گا جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا یہ قانون کی بالادستی کا سوال ہے، ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

ملزمان کے وکیل خالد رانجھا کے دلائل

ضمانت پر رہا ہونے والے پولیس افسران کے وکیل خالد رانجھا نے دلائل کے دوران کہا کہ میرے موکل کو کیس کی ابتدا میں ملزم نامزد نہیں کیا گیا اور 13 نومبر 2010 کو ملزم نامزد کیا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پولیس افسران کے وکلاء سے سوال کیا 'ملزمان نے اپنے کیریئر میں کبھی کوئی اور کرائم سین بھی دھویا، کرائم سین کو محفوظ کرنے کی تربیت تو ٹریننگ میں بھی دی جاتی ہے۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کیا ملزمان سے پوچھیں گے کہ کرائم سین دھونے جیسا غیر معمولی کام کیوں کیا۔

بے نظیر بھٹو قتل کیس کا پس منظر

سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو دسمبر 2007 میں انتخابی جلسے کے بعد راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں شہید کردیا گیا تھا۔

2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن اس دوران سابق وزیراعظم کے مقدمہ قتل میں کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہ ہوسکی۔

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کی 300 سے زائد سماعتیں ہوئیں جبکہ دوران سماعت عدالت کے 6 ججز بھی تبدیل ہوئے۔

استغاثہ کے 141 میں سے67 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جب کہ دیگر گواہوں کو غیر ضروری قرار دے کر ترک کیا گیا۔

31 اگست 2017 کو عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے میں نامزد 5 ملزمان کو بری کیا جن میں رفاقت، حسنین، رشید احمد، شیر زمان اور اعتزاز شاہ شامل ہیں۔

عدالت نے  2 پولیس افسران ایس پی خرم شہزاد اور سابق سی پی او سعود عزیز کو 17، 17  سال قید کی سزا جب کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم دیا تھا۔

مزید خبریں :