20 اکتوبر ، 2018
راولپنڈی میں خاتون سرکاری افسر اور اس کے خاوند کی جانب سے 11 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔
راولپنڈی کی ولایت کالونی میں خاتون سرکاری افسر اور اس کے خاوند کی جانب سے 11 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ طور پر تشدد کیا گیا۔
گھریلو کمسن ملازمہ کو تشویشناک حالت میں والد کے حوالےکیا گیا جو اپنی بیٹی کو لے کر آبائی علاقے سمندری واپس چلا گیا۔
بچی کی آنکھ پر چوٹ ،گال پر زخم کا نشان، گردن جگہ جگہ سے نوچی ہوئی اور بازو پر بھی زخموں کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔
راولپنڈی کی سرکاری خاتون افسر عمارہ ریاض اور اس کے شوہر ڈاکٹر محسن نے بچی کو مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
بچی کہتی ہے کہ مار پیٹ کرنے کے علاوہ اسے بھوکا بھی رکھا جاتا تھا، مالکن اور مالک بیلٹ اور رسی سے مارتے تھے ، نہ کھانا دیتے تھے ، نہ رات کو سونے دیتے تھے۔
گھریلو ملازمہ پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس اور دیگر ادارے حرکت میں آ گئے۔
سی پی او راولپنڈی عباس احسن نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تشدد کرنے والے میاں بیوی کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر اے ایس آئی کو معطل کر دیا۔
سی پی او عباس احسن نے بچی اور اس کے والد کو واپس لانےکے لیے ٹیم سمندری بھیج دی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بچی پر تشدد ثابت ہونے پر میاں بیوی کے خلاف کارروائی ہو گی۔
کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کا معاملہ رفع دفع کرنے کی کوششیں بھی سامنے آئی ہیں۔
گیارہ سالہ کنزہ کے والد کا مبینہ بیان حلفی سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا کہ بچی کو چوٹیں گیٹ پھلانگتے ہوئے لگیں، بچی کو اپنی مرضی سے واپس آبائی علاقے سمندری لے جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ٹوئٹ کیا کہ بچی کے والد نے ابتدائی طور پر بچی پر تشدد سے انکار کیا لیکن بچی پر تشدد کے معاملے کو دیکھ رہےہیں۔
شیریں مزاری نے کہا کہ اے ایس آئی کو غلط تحقیقات کرنے پر معطل کر دیا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایف آئی آر درج ہو اور کارروائی کی جائے۔