21 اکتوبر ، 2018
راولپنڈی میں کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کا مقدمہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی مدعیت میں درج کر لیا گیا، میڈیکل رپورٹ میں 11 سالہ کنزیٰ پر تشدد کی تصدیق ہوگئی۔
سی پی او راولپنڈی احسن عباس کے مطابق بچی کے جسم کے مختلف حصوں پر چوٹوں کے نشانات ہیں، سر پر لگے دو تین دن پرانے زخم پر ٹا نکے بھی لگے ہوئے ہیں۔ کنزیٰ کو خاتون سرکاری افسر اور اس کے شوہرنے مبینہ طور پر اپنے گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ کنزیٰ نے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ مالکن اور مالک بیلٹ اور رسی سے مارتے تھے، نہ کھانا دیتے تھے ،نہ رات کو سونے دیتے تھے۔
'مالک اور مالکن کنزہ کو 2 سال سے تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے'
راولپنڈی میں تشدد کا نشانہ بنائی گئی 11 سالہ گھریلو ملازمہ کی بہن کا دعویٰ ہے کہ مالک اور مالکن کنزہ کو 2 سال سے تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے، جس کی وجہ سے وہ واپس نہیں جانا چاہتی تھی اور پڑھنا چاہتی تھی۔
واضح رہے کہ راولپنڈی کی ولایت کالونی میں خاتون سرکاری افسر عمارہ ریاض اور ان کے خاوند ڈاکٹر محسن کی جانب سے 11 سالہ گھریلو ملازمہ کنزہ پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس کا نوٹس لیا تھا۔
وائرل ویڈیو میں بچی کی آنکھ پر چوٹ جبکہ گال، گردن اور بازو پر بھی زخموں کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔
فیصل آباد کے علاقے سمندری کی رہائشی کنزہ کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے ہے، جہاں اس کے والد نے 3 سال پہلے محض 5 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر اپنی 11 سالہ بیٹی کنزہ کو ملازمت کے لیے راول پنڈی بھیجا تھا۔
کنزہ کی بڑی بہن کا کہنا ہے کہ شروع کا ایک سال تو سکون سے گزرا لیکن گزشتہ دو سالوں سے کنزہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، جب تشدد زیادہ بڑھا تو اُس نے بھاگ کر پڑوسیوں کے گھر میں پناہ لے لی تھی۔
بعدازاں بچی کو تشویشناک حالت میں اس کے والد کے حوالے کیا گیا، جو اسے لے کر آبائی علاقے سمندری آگئے تھے۔
اس حوالے سے بچی کے ماموں کا کہنا ہے کہ کنزہ کے والد نے دباؤ میں بانڈ پیپر سائن کیا۔
تاہم گھریلو ملازمہ پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس اور دیگر ادارے حرکت میں آئے اور سی پی او راولپنڈی عباس احسن نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تشدد کرنے والے میاں بیوی کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر اے ایس آئی کو معطل کر دیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بچی پر تشدد ثابت ہونے پر میاں بیوی کے خلاف کارروائی ہوگی۔
دوسری جانب اہلخانہ کا کہنا ہے کہ پولیس سمندری سے کنزہ اور اس کے والد کو لے کر راولپنڈی چلی گئی ہے، تاکہ حقائق سامنے لائے جاسکیں۔
کمسن گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں، جن میں ملوث افراد لوگوں کی غربت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ملازمین سے غلاموں جیسا برتاؤ کرتے ہیں، لیکن جب معاملہ پولیس تک پہنچے تو بات ختم کرنے کا راستہ نکال لیا جاتا ہے۔