26 اکتوبر ، 2018
لاہور: پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبا کے کارکنوں کے ہاتھوں طالبہ کے شوہر پر تشدد کے واقعے کی انکوائری کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تشکیل کردہ 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد کی سربراہی میں کمیٹی اجلاس کے دوران تشدد کرنے والے اسلامی جمعیت طلبا کے دونوں کارکن جبکہ معطل کیا جانے والا سیکیورٹی گارڈ جاوید بھی پیش ہوا۔
کمیٹی نے گذشتہ روز کے واقعے سے متعلق ان کے بیانات کا جائزہ لیا۔
واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبا کے کارکنوں نے دو روز قبل نجی ٹی وی چینل کے پروڈیوسر اویس پر یہ الزام لگا کر تھپڑوں کی بارش کردی تھی کہ وہ ایک نامحرم طالبہ کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں۔
موبائل فون سے بنی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبہ چیختی چلاتی ہے اور بتاتی ہے کہ اویس اس کا شوہر ہے، مگر طلبا تنظیم کے کارکن اُس پر تشدد جاری رکھتے ہیں۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور نے گزشتہ روز واقعے کا نوٹس لے کر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد سے رپورٹ طلب کرکے ذمہ داران کے خلاف سخت اقدامات کی ہدایات جاری کی تھیں۔
جس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سارا ملبہ وہاں موجود ایک سیکیورٹی گارڈ جاوید پر ڈال کر اسے 10 دن کے لیے معطل کر دیا جبکہ شعبہ اسلامیات کے طالبعلم مظہر اور جیالوجی ڈپارٹمنٹ کے عثمان انور کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے گئے۔
رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خالد خان کے مطابق 'یہ واقعہ گارڈ کی وجہ سے پیش آیا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'طالبہ اپنے شوہر کے ساتھ پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ میں بیٹھی تھی اور وہ وہاں کھانا کھا رہے تھے، جس پر وہاں تعینات گارڈ نے ان سے کہا کہ یہ سب یہاں نہ کریں، جس پر وہ گارڈ سے الجھ پڑے، جس کے بعد باقی لوگ بھی وہاں آگئے'۔
دوسری جانب جب اس حوالے سے طلبا تنظیم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے سرے سے تشدد کے واقعے میں ملوث ہونے کی ہی تردید کردی۔
اسلامی جمیعت طلبا کے رکن محمد شہباز نے جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ 'ہم وہاں چھڑوانے گئے تھے لیکن چند عناصر نے واقعے کی ویڈیو بنالی اور ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے'۔
دوسری جانب واقعے کے نتیجے میں معطل کیے گئے سیکیورٹی گارڈ کا کہنا ہے کہ اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے اور زبردستی معافی منگوائی گئی۔