Time 22 نومبر ، 2018
پاکستان

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

 سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

اٹارنی جنرل ایک بار پھر عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ اٹارنی جنرل اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہیں۔

اس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کیا اٹارنی جنرل ماہر معاشیات ہیں؟ ای سی سی کے اجلاس میں ان کا کیا کام؟ اٹارنی جنرل ریاست کا سب سے بڑا لاء افسرہے یا وزیراعظم کا ذاتی ملازم؟ ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔

معزز جج نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل اور ججز سمیت ہر کوئی ریاست کا ملازم ہے، کیا وزیراعظم سپریم کورٹ سے بالا ہیں؟ وزیراعظم نے اٹارنی جنرل کو کہا اور وہ منہ اٹھا کر چل دیے، اٹارنی جنرل کو وزیراعظم کو بتانا چاہیے تھا کہ انہیں عدالت میں پیش ہونا ہے، اٹارنی جنرل کو وزیراعظم سے معذرت کرنی چاہیے تھی۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 20 نومبر کو وزارت داخلہ کو ٹی ایل پی کی رجسٹریشن سے متعلق خط لکھا ہے، ہمارا قانون مصنوعی نہیں ہے، الیکشن کمیشن کے لاء آفیسر نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے، الیکشن کمیشن نے قانون پر عمل نہ کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیے ہیں۔ْ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکریٹری الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ آپ ایک جماعت کو نوٹس کریں وہ کہے جہنم میں جاؤ،پھر آپ کیا کرینگے؟ کیا شکریہ کہہ کر کیس ختم کر دیں گے؟ الیکشن کمیشن کہتا ہے ان کا قانون مصنوعی ہے۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور اس موقع پر انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین میں الیکشن کمیشن کا کام انتخاب کرانا ہے، پارلیمنٹ کے بنائے الیکشن قوانین میں سقم ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ کیا آپ سیاسی جماعت پر جرمانہ عائد نہیں کر سکتے؟ کیا آپ سیاسی جماعت کی رجسٹریشن منسوخ نہیں کر سکتے؟ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رجسٹریشن منسوخ کرنے کا طریقہ کار الگ ہے، اس پر معزز جج نے ریمارکس دیئے کہ اپنی غلطی پر پارلیمنٹ کو الزام مت دیں، ہم ہر وقت پارلیمنٹ کے خلاف بات کرتے ہیں، پارلیمنٹ الیکشن قوانین میں بہت کلیئر ہے، پارلیمنٹ کی خودمختاری کو تسلیم کریں۔

جسٹس قاضی نے مزید استفسار کیا کہ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے دھرنا دیا توان کا مطالبہ تھا کہ دھاندلی ہوئی کمشین بنایا جائے؟ کمیشن نے متفقہ طور پر کہا دھاندلی کے الزامات غلط ہیں، پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے کیا قوم سے معافی مانگی؟ کیا انہیں چاہیے نہیں تھا کہ وہ قوم سے معافی مانگتے؟ انہوں نے کہا کہ وہ کمیشن کے نتائج ہی کو نہیں مانتے۔

معزز جج نے کہا کہ ہمیں طے کرنا ہو گا کہ ہم نے پاکستان کیسے چلانا ہے، طاغوتی قوتوں نے ملک کا مستقبل طے کرنا ہے یا پارلیمنٹ نے؟ کیا بنیادی حقوق بھی محض زیبائشی چیزیں ہیں؟

بعد ازاں عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ آئینی ترمیم الیکشن بل 2017 میں حلف نامے کے الفاظ کو تبدیل کیے جانے پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے گزشتہ برس نومبر میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 22 روز تک دھرنا دیا گیا، مظاہرین کے خلاف ایک آپریشن بھی کیا گیا، جس کے بعد ایک معاہدے کے بعد دھرنا اختتام پذیر ہوا۔

مظاہرین کے مطالبے کے بعد اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

فیض آباد دھرنے میں اسلام آباد پولیس کا کُل خرچہ 19 کروڑ 55 لاکھ روپے آیا جبکہ میٹرو اسٹیشن کی توڑ پھوڑ اور بندش کے باعث قومی خزانے کو 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان بھی ہوا۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخودنوٹس لیا تھا۔

مزید خبریں :